مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کر دیا تقسیم... نواب علی اختر

مہاجرین سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام اور وینزویلا سے لوگوں کے فرار ہونے کی ایک بڑی وجہ ان ممالک پر عائد کردہ شدید نوعیت کی بین الاقوامی معاشی پابندیاں ہیں۔

مہاجرین کیمپ، تصویر آئی اے این ایس
مہاجرین کیمپ، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

ہر سال کی طرح ایک بار پھر 20 جون کی تاریخ کو دنیا بھر میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ٹھکانہ تلاش کرنے والے کڑوروں مہاجرین کے لیے گھڑیالی آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر ایک ملک اپنے حریف کو مورد الزام ٹھہرانے میں سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ ان حالات میں کروڑوں انسان اپنے شیرخوار بچوں کو گودی میں لئے اورعورتوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے ایک ملک سے دوسرے ملک کی سرحد عبور کرکے زندگی کی تلاش کرتے نظر آرہے ہیں مگر مسئلے کے مستقل حل کی سمت میں قدم بڑھانے کے لیے کوئی بھی ملک سنجیدہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ویسے بھی دنیا کا کوئی بھی حصہ ہو پناہ گزینوں کے مسائل یکساں ہی ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 8 کروڑ انسان مہاجر ہیں۔ گزشتہ دہائی میں عالمی سیاسی عمل میں ناکامی نے مہاجرین کی تعداد بڑھا کر دوگنی کر دی ہے۔

دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد یا تقریباً 8 کروڑ افراد مسلح تنازعات، جنگی حالات، قحط اور نامناسب صورت حال یا انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مہاجرت پر مجبور انسانوں کی اس بہت بڑی تعداد کا نصف بچوں پر مشتمل ہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے پناہ گزینوں کی تعداد کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ مسلسل 20 واں سال ہے جب یہ ادارہ عالمی یوم مہاجرین پر دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد اور ان کی حالت زار پر اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب 20 جون کو رسماً ایک سالانہ روایت کی سی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور عملی اقدامات کے بجائے محض اعداد و شمار پر نظر ڈالنا ہی باقی رہ گیا ہے۔


تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس منائے جانے والے عالمی یوم مہاجرین کے بعد سے ان مہاجرین کی تعداد میں 10 ملین یا ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ افراد انسانی المیے کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق دنیا کی تاریخ میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے اور یہ بات واضح کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بین الاقوامی سیاسی عمل کس حد تک ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ یہ ایک پریشان کن صورت حال بھی ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے اور یہی ہتھیار مسلح تنازعات میں شدت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے بھی معمول کی زندگی کو متاثر کر رکھا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کے درجۂ حرارت میں اضافے کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا نے بھی انسانوں میں مہاجرت کے رجحان کو تقویت دی ہے۔

مسلح تنازعات کے شکار ممالک کو بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا ہے اور اس باعث بھی مقامی آبادیاں نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ مہاجرین سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام اور وینزویلا سے لوگوں کے فرار ہونے کی ایک بڑی وجہ ان ممالک پر عائد کردہ شدید نوعیت کی بین الاقوامی معاشی پابندیاں ہیں۔ جنگی حالات اور پابندیوں کے باعث شامی مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں مقیم ہیں، جبکہ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک وینزویلا سے ترک وطن کرنے والے شہری کولمبیا و دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ مہاجرین کی مخالفت اور ان کے خلاف متعصبانہ سوچ پھیلانا کئی ملکوں میں وہاں کے سیاسی عمل کا حصہ بن چکا ہے۔ مہاجرت ختم کر کے واپس اپنے اپنے وطن لوٹ جانے والوں کی تعداد حوصلہ افزا نہیں ہے، کیونکہ ان کے آبائی ممالک میں حالات بدستور ناموافق ہیں۔


دنیا میں کروڑوں مہاجرین ہیں جو اپنے گھروں، اپنے ملکوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی در بدر ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی اپنا گھر ہے، نہ ملک ہے، نہ اپنی کوئی شناخت ہے اور نہ ہی کوئی مستقل ٹھکانہ ہے۔ پھر بھی بشمول اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے دنیا کے بیشتر ممالک کو مہاجرین کو پناہ دینے کی بات آتے ہی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں معروف شاعر شہپر رسول کا شعر دہرانے کو دل چاہتا ہے: ’مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کر دیا تقسیم- نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف‘ جب آسمان میں پرواز کرتے پرندے بھی تنکا تنکا اکھٹا کرکے اپنا گھوسلا، ایک ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں تو انسان تو ایک سماجی جاندار ہے۔ ایک آشیانہ، روز مرہ استعمال کا سامان اور ایک قومی شناخت اپنے لیے کون نہیں چاہتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب کی قسمت ایک جیسی ہو۔

دنیا کے مختلف حصوں میں گندگی اور بے بسی کے اندھیرے میں کھڑی ان عارضی بستیوں میں لوگ اپنی نئی نسلوں کے تاریک مستقبل کی بنیاد پر کسی طرح وقت کاٹ رہے ہیں۔ ایسی بستیاں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے ہر ملک، ہر حصے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں ہی دیکھیں تو ایسی کئی بستیاں ہیں جو ’بے ملک‘ ہزاروں زندگیوں کا عارضی ٹھکانہ بنی ہوئی ہیں۔ دہلی کے مختلف گوشوں میں دیکھی جانے والی بستیاں کہیں تبتی پناہ گزین، بنگلہ دیش اور میانمار سے آئے روہنگیاؤں، افغانستان اور پاکستان سے بھاگ کر آئے اقلیتوں کا ٹھکانہ بنی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جموں میں افغانستان سے آئے اقلیتوں، تمل ناڈو میں سری لنکائی تملوں کے کیمپ، جیسلمیر میں پناہ گزینوں کے لگے عارضی کیمپ انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو منہ چڑھا رہے ہیں۔


ان عارضی کیمپوں میں پل رہے بچے اور نوجوان مستقل رہائش، تعلیم، صحت، روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں کورونا وبا کے اس بحران نے مہاجرین کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اندازے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 3 لاکھ پناہ گزین رہتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ روہنگیا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اپنی زندگی بچانے کے لیے بنگلہ دیش اور میانمار سے یہاں پہنچے ہیں اور یہ لوگ واپس جانا نہیں چاہتے ہیں۔ حکومت انہیں واپس ان کے ملک بھیجنا چاہتی ہے لیکن وہاں کی حکومتیں اپنے ہی شہریوں کو اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ نا امیدی اور تاریک مستقل کے سائے میں ہزاروں بچے پل رہے ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کا 1951 کا چارٹر اور 1967 کا پروٹوکال ’بے ملک‘ مہاجرین کو پناہ دینے کی وکالت کرتا ہے، لیکن ہندوستان نے ان پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

ہندوستان میں تقریباً 40 ہزار روہنگیاؤں کے پناہ لینے کا اندازہ ہے لیکن ان میں سے صرف 14 ہزار مہاجرین کو پناہ گزین کا درجہ حاصل ہے باقی لوگوں کو حکومت درانداز مانتی ہے اور واپس ان کے ملک بھیجنے کی کارروائی میں مصروف ہے۔ انہیں کسی بھی طرح اپنے ملک واپس بھیجنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ دو روز قبل ہی دہلی- یوپی سرحد پر کالندی کنج میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں آگ بھڑک اٹھی اور سینکڑوں پناہ گزین اپنے عارضی کیمپوں سے بھی محروم ہوگئے۔ میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق متاثرین کا کہنا ہے کہ ایک روز قبل ہی کچھ لوگوں نے یہاں آکر جگہ خالی کرنے کی دھمکی دی تھی اور دوسرے ہی روز کیمپوں میں آگ بھرک اٹھی۔ علی الصبح یہاں پر آگ کیسے لگی؟ اس سوال نے انتظامیہ کے منہ پر تالا لگا رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔