مودی حکومت چھپر میں آگ لگا کر سینک رہی ہاتھ... عبید اللہ ناصر

معاشیحقائق کا اندازہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے دیئے گئے ان اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی گھریلو پیداوار 15 برسوں میں سب سے نچلی سطح پرہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

یہ ایک جگ ظاہر حقیقت ہے کہ عام طور سے گھر کے برتن بھاڑے اور اثاثہ تبھی بیچے جاتے ہیں جب کوئی خاص ضرورت یا بڑی مصیبت سامنے ہو- مرکزی کابینہ نے بھارت پٹرولیم کارپوریشن سمیت عوامی زمرہ کے اداروں سے سرمایہ نکاسی کو منظوری دے دی ہے، ان میں شپنگ کارپوریشن آف انڈیا، کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا، ٹہری ہائیڈرو ڈیو لپمنٹ کارپوریشن، نارتھ ایسٹرن الیکٹرک پاور کارپوریشن آف انڈیا وغیرہ شامل ہیں-اول الذکر تین کمپنیوں کو نجکاری کے لئے پیش کیا جا رہا ہے جبکہ باقی دو کمپنیوں کی انتظامیہ نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کو سونپی جائے گی-

بھارت پٹرولیم کارپوریشن ملک کی نو رتن کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے پھر بھی اس کی نجکاری کس مقصد سے کی جا رہی ہے یہ بات سمجھ سے پرے ہے- نوٹ بندی کے نا عاقبت اندیشانہ فیصلہ کے بعد ہندوستانی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا ہے ملک اس سے ابھی تک ابھر نہیں پایا ہے- ریزرو بینک سے ایک لاکھ 76 ہزار کروڑ روپیہ لینے کی باوجود ملکی معیشت کو استحکام نہی حاصل ہو رہا ہے، حکومت طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکوں سے معیشت کی روشن تصویر پیش کرنے کی لاحاصل کوششیں کر رہی ہے لیکن تلخ حقیقت سامنے آہی جاتی ہے-


خود بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ حکومت اعداد و شمار میں تبدیلیاں کر کے معیشت کی اصل حالت چھپا رہی ہے لیکن میڈیا میں چھن چھن کر اصلیت سامنے آ رہی ہے اس کے علاو عالمی معاشی ادارہ بھی ہندوستانی معیشت کی ڈھیلی ہوتی چولوں کو سامنے لاتی رہتی ہے- نیتی ایوگ کے چیئرمین راجیو کمار نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ 70 برسوں میں ایسی بدحال معیشت کبھی نہیں رہی-

کانگریس کے دور میں عوامی زمرہ کے یہ ادارہ ہندوستانی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑے کرنے کے لئے بنائے گئے تھے ان اداروں کی وجہ سے ہی ہندوستانی معیشت عالمی کساد بازاری میں بھی مستحکم رہی، یہ ٹھیک ہے ان میں بدعنوانی اور لال فیتہ شاہی پھیل گئی تھی اور کئی ادارہ سفید ہاتھی بن کر معیشت پر بوجھ بن گئے تھے ان سے سرمایہ نکاسی اور انھیں نجی زمرہ میں دیا جانا حق بجانب ہے اور نئی معاشی پالیسی نافذ کرتے وقت کانگریس کی حکومت نے ہی سرمایہ نکاسی کی پالیسی اختیار کی تھی لیکن منافعہ میں چل رہی کمپنیوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کا سلسلہ اٹل جی کے دور میں شروع ہوا تھا اور اب مودی جی تو سب کچھ بیچنے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں اور تو اور ریلوے جیسے محکمہ کو بھی نجی ہاتھوں میں سونپنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے انجام بد کا سوچ کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔


کانگریس سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کو اس کے خلاف بڑی تحریک چلانی چاہیے ہندوستان جیسے ملک کے عوام کو کارپوریٹ کے منافعہ خوروں کے رحم و کرم کرم پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ یہاں پر ممتاز سوشلسٹ مفکر آنجہانی ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کا وہ قول یاد آ جاتا ہے کہ جب سڑک سنسان ہو جاتی ہے تو پارلیمنٹ آوارہ ہو جاتی ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بچوں نے عوام اور سیاسی پارٹیوں کو ایک راہ تو دکھا دی ہے اب کوئی اس پر چلتا ہے یا نہیں، ملک و قوم کے لئے اس کے عہد و پابند کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ لوک سبھا میں اپنی اکثریت کی بنا پر مودی حکومت کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں ہے اب عوامی تحریکوں کے ذریعہ ہی اسے ہوش میں لایا جا سکتا ہے۔


صرف نوٹ بندی ہی نہیں جی ایس ٹی کو جس طرح بغیر ٹھوس تیاری اور سوچ بچار کے جلد بازی میں نافذ کیا گیا اس سے بھی معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے صرف مرکزی حکومت ہی نہیں ریاستی حکومتیں بھی اس مار سے بچ نہیں پائی ہیں کیونکہ جی ایس ٹی سے ٹیکس حسب توقع جمع نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کو ان کا حصہ ہی نہیں مل سکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ تین مہینوں سے ریاستوں کو ان کا حصّہ نہیں ملا ہے- پانچ ریاستوں کے وزرائے مالیات نے مشترکہ بیان میں کہا بھی ہے کہ ان کا قریب 35 ہزار کروڑ روپیہ مرکزی حکومت پر واجب ہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے پاس اسٹاف کو تنخواہ دینے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ان میں سے کئی ریاستوں کے قرض میں ڈوب جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ جی ایس ٹی کی وجہ سے ان کا 60 فیصدی ٹیکس کم ہو گیا ہے اور مرکز سے ان کو واپسی نہیں مل رہی ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت اعداد و شمار کی بازیگری کے ذریعہ معیشت کی چاہے جتنی خوبصورت تصویر پیش کرے پانچ ٹریلین کی معیشت بنانے کا خواب دکھانا ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا 2014 کے الیکشن میں سبھی کے کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ تھا- سچائی یہ ہے کہ مرکزی حکومت کا ٹیکس کلیکشن مسلسل رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں راست ٹیکس کی جمع کل 6 لاکھ کروڑ ہے جبکہ جمع کی امید ساڑھے 13 لاکھ کروڑ تھی۔ اب حکومت اس کمی کو اثاثہ فروخت کر کے پورا کرنا چاہتی ہے جو ایسا ہی ہے جیسے چھپر میں آگ لگا کر ہاتھ سینکا جائے۔


خطرناک معاشی حقائق کا اندازہ ایک موقر انگریزی روزنامہ میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے دیئے گئے ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی گھریلو پیداوار 15 برسوں میں سب سے نچلی سطح پر ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے گھریلو کھپت چار دہائیوں میں سب سے نچلی سطح پر ہے جبکہ بنکوں میں ناقابل وصول قرض ہمیشہ سے زیادہ ہے اور بجلی کھپت 15 برسوں میں سب سے کم ہے یعنی صنعتی سرگرمیاں بھی قریب قریب ٹھپ ہیں- مودی حکومت نے یو پی اے دور حکومت میں اونچی گھریلو پیداوار سے متعلق اعداد و شمار ہی سرکاری ویب سائٹ سے ہٹا دیئے ہیں اس سے مودی حکومت کے کام کرنے کے انداز اور عوام سے حقائق چھپنے کی روش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2019, 11:11 PM