پارلیمنٹ کی سیکورٹی کا معاملہ اور حکومت کا رویہ... سہیل انجم

یہ ایسی حکومت ہے جو تنقید برداشت نہیں کرتی، وہ اپنے کسی فیصلے پر انگشت نمائی گوارہ نہیں کرتی، جن ملکوں میں آمریت یا ڈکٹیٹر شپ ہوتی ہے وہاں ایسا ہوتا ہے، لیکن ہندوستان تو ایک جمہوری ملک ہے۔

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا کی سیکورٹی میں کوتاہی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

لوک سبھا کی سیکورٹی میں کوتاہی، تصویر سوشل میڈیا

user

سہیل انجم

ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ پارلیمنٹ کی وزیٹرز گیلری سے دو لوگ ایوان کے اندر کود گئے۔ بینچوں پر بندروں کی طرح چھلانگ لگائی اور پکڑے جانے پر رنگین گیس چھوڑ کر پورے ایوان کو حواس باختہ کر دیا۔ ممبران پارلیمنٹ نے فوری طور پر ان کو پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس سے عین قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی دو لوگوں نے احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ انھوں نے بھی رنگین گیس خارج کی۔ شکر ہے کہ وہ لوگ دہشت گرد نہیں تھے یا ان کے پاس کوئی خطرناک ہتھیار نہیں تھا۔ ورنہ ایوان کے اندر بڑی تباہی مچ سکتی تھی۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے اندر ہوا جس کی سیکورٹی کے بارے میں انتہائی بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔

یہ سب کچھ حیرت انگیز اور افسوسناک تو ہے ہی، اس سے افسوسناک حکومت کا رویہ ہے۔ حالانکہ وہ کہہ رہی ہے کہ اس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے، آٹھ سیکورٹی اہلکار معطل کر دیے گئے ہیں اور ایک اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یا تو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا یا پھر وہ اپوزیشن ارکان کی تشویش کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ جس وقت یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تھی تو دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں سیکورٹی کے ایسے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں جو پرانی عمارت میں نہیں ہیں۔ لیکن جب حکومت کے دعوے کی پول کھل گئی تو پھر اس معاملے کو ادھر ادھر گھمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


یقیناً یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور سب کو اس پر حکومت کا موقف جاننے کا حق ہے۔ اپوزیشن کو بھی ہے اور عوام کو بھی ہے۔ کیونکہ یہ ارکان پارلیمنٹ کی زندگیوں کا معاملہ تو ہے ہی ہندوستان کے وقار کا بھی معاملہ ہے۔ دنیا کیا کہے گی کہ ایک ایسے ملک کی پارلیمنٹ کی، جو خود کو وشو گرو یا عالمی قائد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، حفاظت میں اتنی کمی ہے کہ کوئی بھی اند داخل ہو سکتا ہے اور ممبران کی زندگیوں کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ لیکن جب اس معاملے پر حکومت سے اور بالخصوص وزیر داخلہ سے جواب دینے کا مطالبہ کیا گیا تو مطالبہ کرنے والے ممبران کو ایوان سے ہی معطل کر دیا گیا۔ یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ڈری ہوئی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ پارلیمنٹ کی حفاظت میں حکومت کی ناکامی دنیا کے سامنے واضح ہو سکے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کا یہ کہنا کتنا مضحکہ خیز ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کی سکریٹریٹ کے تحت آتا ہے اور وہ حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سکریٹریٹ حکومت سے الگ کوئی آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ حالانکہ ملک میں جتنے آزاد اور خود مختار ادارے ہیں ان تمام پر تو حکومت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اور جب پارلیمنٹ کی سلامتی کا معاملہ آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس میں حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


دراصل یہ ایسی حکومت ہے جو تنقید برداشت نہیں کرتی۔ وہ اپنے کسی فیصلے پر انگشت نمائی گوارہ نہیں کرتی۔ جن ملکوں میں آمریت یا ڈکٹیٹر شپ ہوتی ہے وہاں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ہندوستان تو ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں ہر شخص کو حکومت کے کام کاج کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کو تو بدرجۂ اولیٰ ہے۔ لیکن وہ بھی حکومت سے اور وہ بھی ایوان کے اندر کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ یہ حکومت قومی سلامتی اور ملک کے تحفظ کی چمپئن بننے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ ملک کو بکنے نہیں دے گی، جھکنے نہیں دے گی۔ لیکن آئے دن پیش آنے والے واقعات اس دعوے کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جن ممبران نے سیکورٹی کے معاملے پر سوال اٹھایا انھیں معطل کر دیا گیا اور جس ممبر پارلیمنٹ کے جاری کردہ پاس پر درانداز ایوان کے اندر آئے ان کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ان کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی سوال جواب کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے سکریٹریٹ کے قوانین و ضوابط کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق ان سے بھی پوچھ تاچھ ہونی چاہیے۔ اسپیکر کو چاہیے کہ وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کی ایتھکس کمیٹی کے حوالے کریں جو ان سے تفتیش کرے اور اس معاملے میں اپنی رپورٹ دے۔


یاد رہے کہ ایتھکس کمیٹی وہی کمیٹی ہے جس نے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کے معاملے کی جانچ کی اور ان کو ایوان سے برطرف کرنے کی سفارش کی اور پارلیمنٹ نے آناً فاناً میں ان کی رکنیت چھین لی۔ لیکن بی جے پی کے ایم پی پرتاپ سمہا سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو رہی ہے۔ تجزیہ کار سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان کی بھی جواب دہی ہوتی ہے لیکن ان سے کوئی کیوں نہیں کچھ پوچھ رہا ہے۔ اس معاملے کی پوری جانچ ہونی چاہیے اور اگر کوئی سازش ہے تو اس کے سرے کو پکڑنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مکمل طور پر جانچ ہو اور پرتاپ سمہا سے بھی تفتیش کی جائے۔

جہاں تک ان چاروں احتجاجیوں کا معاملہ ہے تو قابل ذکر ہے کہ وہ مودی کے مداح رہے ہیں۔ لیکن ملکی مسائل سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی پریشانی اور منی پور کے فساد سے مایوس اور پریشان ہیں اور ان کا مقصد صرف حکومت کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانا تھا۔ ایک شخص کے پاس سے ایک ایسا پوسٹر بھی برآمد ہوا ہے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو لاپتہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کو تلاش کرنے والے کو انعام دیا جائے گا۔


ان تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کے نام ساگر شرما، ڈی منورنجن، نیلم دیوی اور امول سنہا ہیں۔ مزید دو ملزموں کے نام للت جھا اور وکی شرما ہیں۔ جھا نے اس واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تھی۔ وہ شروع میں فرار تھا مگر پھر پولیس کے سامنے حاضر ہو گیا۔ وہ کلکتہ کا باشندہ ہے۔ پہلے ٹیچر تھا، اب بے روزگار ہے۔ دوسری طرف وکی شرما نے گڑگاؤں میں اپنے مکان پر چاروں کو ٹھہرایا تھا۔ اسے اور اس کی بیوی کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ ابتدائی جانچ کے مطابق ان چاروں کا تعلق ’بھگت سنگھ فین کلب‘ نامی ایک سوشل میڈیا گروپ سے ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے توسط سے رابطے میں آئے تھے اور انھوں نے ڈیڑھ سال قبل میسور میں ایک دوسرے سے ملاقات کی تھی۔

ساگر شرما لکھنؤ، امول سنہا مہاراشٹرا، منورنجن میسور اور نیلم ہریانہ کی رہائشی ہیں۔ یہ تمام لوگ بے روزگار ہیں۔ منورنجن انجینئر، ساگر آٹو رکشا ڈرائیور اور نیلم طالب علم ہیں۔ وہ صبح کے وقت انڈیا گیٹ پر اکٹھے ہوئے تھے۔ ان تمام کا ارادہ اندر جانے کا تھا لیکن صرف دو لوگوں ساگر اور منورنجن کے لیے ہی پاس کا انتظام ہو سکا۔ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہونے کی تیاری کئی مہینے قبل کر لی گئی تھی۔ منورنجن نے سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا اور اس نے یہ بات بطور خاص نوٹ کی تھی کہ سیکورٹی جانچ کے دوران جوتوں کی جانچ نہیں کی جاتی۔


اس بات کو محسوس کرنے کے بعد اس کو جوتے کے اندر گیس کنستر چھپانے کا خیال آیا۔ منورنجن نے جوتے میں جگہ بنوائی اور اس میں گیس کنستر چھپایا۔ اسی لیے وہ سیکورٹی جانچ میں نہیں پکڑا گیا۔ اسے جھک کر جوتے سے کچھ نکالتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پارلیمنٹ آنے والوں کے جوتوں کی بھی جانچ کی جانے لگی۔ اگر یہی جانچ پہلے کی جاتی تو شاید یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کے لیے ایک روز قبل ہی ٹنڈر نکالا گیا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کی سیکورٹی کا معقول انتظام کیے بغیر ہی عجلت میں اس میں کارروائی شروع کرا دی گئی تاکہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں اس معاملے کو بھی کیش کرایا جا سکے۔

ماہرین بھی پارلیمنٹ کی سیکورٹی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیٹرز گیلری سے ایوان کے اندر کاغذ اور رومال پھینکنے کے واقعات تو ہوئے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ دو لوگ داخل ہو گئے اور انھوں نے ایوان کے اندر رنگین گیس چھوڑ دی۔ پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں زبردست حفاظتی انتظامات تھے جبکہ نئی عمارت میں نہیں ہیں۔ پرانی عمارت میں آمد و رفت کے الگ الگ راستے ہیں لیکن نئی عمارت میں ایک ہی راستہ ہے۔ پرانی عمارت میں وزیٹرز گیلری کافی اونچی ہے۔ لیکن نئی عمارت میں اس کی اونچائی چھ ساڑھے چھ فٹ ہوگی۔ گیلری میں لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکورٹی اہلکار کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی میں ایسا کیسے ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو وہاں سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی نہیں رہی ہو گی یا پھر انھوں نے توجہ نہیں دی ہوگی۔


انھوں نے پاس جاری کیے جانے کے معاملے کو بھی مشکوک بتایا۔ ان کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی سفارش پر ہی پاس جاری کیے جاتے ہیں اور ارکان کا عملہ روا روی میں پاس جاری نہیں کر دیتا۔ یاد رہے کہ سینئر کانگرس رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے بھی پاس جاری کیے جانے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کے پس پردہ بی جے پی کے وہ رکن پارلیمان ہیں جنھوں نے پاس جاری کیا۔ انھوں نے اسے ایک سنگین معاملہ قرار دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں وزیر داخلہ کو سیکورٹی میں خامی کے سلسلے میں قوم کو بتانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔