منموہن کے تئیں امنڈ رہی محبت حقیقی معنوں میں جمہوری وقار کا احترام ہے... یوگیندر یادو
ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرنا ذاتی وقار، جمہوری روایت اور ایماندار نظریاتی بحث کی ہندوستانی وراثت کو یاد کرنا ہے۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ، تصویر@INCIndia
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد ان کے تئیں امنڈی عوامی محبت ایک حد تک حیران کرتی ہے۔ منموہن سنگھ جی نہ تو کوئی کرشمائی شخصیت کے مالک تھے، نہ ان کا اپنا کوئی وسیع مینڈیٹ تھا، نہ ہی وہ فصاحت بیانی کے لیے جانے جاتے تھے۔ ان کی پالیسیوں سے جن عام لوگوں کو فائدہ ہوا تھا، وہ یہ جانتے بھی نہیں ہوں گے۔ یہ یاد دلانے والا ان کا سیدھے سیدھے کوئی سیاسی جانشیں بھی نہیں ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم جیسے عہدہ پر فائز شخص کے گزر جانے پر رسمی بیان، کھوکھلی تعریف اور چند بھکتوں یا پارٹی کے ذریعہ ان کی تعریف تو ایک عام بات ہے۔ لیکن ایسی رسمی تعریف جلد ہی تلخ حقائق کے بوجھ تلے دب کر بجھ جاتی ہے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔ یہ سمجھ آتا ہے کہ سکھ طبقہ انھیں وہ احترام دے جو ان کے جیتے جی انھیں نہیں دے پائی، لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں منموہن سنگھ کے تئیں جو اپنائیت اور احترام ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ کسی ایک طبقہ، کسی ایک پارٹی یا کسی نظریہ تک محدود نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کسی آئی ٹی سیل کی منصوبہ بند تشہیر نہیں ہے۔ اس کے برعکس جب سوشل میڈیا پر ان کے خلاف غلط تشہیر کی کوشش کی گئی تو وہ ناکام ہو گئی۔ ہار کر بی جے پی کے ٹرولس کو بھی کانگریس پر ان کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی تعریف میں ہی زور لگانا پڑا۔ حکومت انھیں ’بھارت رتن‘ دے یا نہ دے، سردار منموہن سنگھ کی موت کے بعد مقبولیت انھیں اس درجہ پر پہنچا چکی ہے۔
اس کی وجہ تلاش کرنے پر پہلا اور سب سے سہل جواب تو ان کی شخصیت میں دکھائی دیتا ہے۔ گاؤں سے آکسفورڈ-کیمبرج کا سفر، ایک غریب کنبہ سے اقتدار کے عروج تک پہنچنے کی جدوجہد سب کو ترغیب دیتی ہے۔ ان کی زندگی کے اس حصہ کو یاد کرنے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن ہندوستانی صرف کامیابی کی پوجا نہیں کرتے۔ یوں بھی ان کی جدوجہد کسی سماجی یا سیاسی کارکن کی جدوجہد نہیں تھی۔ زندگی میں ان کے کامیاب سفر سے زیادہ اہم تھی ان کی شخصیت، جو اس کامیابی کو چار چاند لگاتی تھی۔ ان کا منکسر المزاج ہونا اور نرمی سے بات کرنا شاید انہی لوگوں کو نظر آ پاتا تھا جو ان سے مل سکے۔ ان جملوں کے لکھنے والے کو بھی یہ موقع میسر ہوا۔ لیکن یہ بات دور سے بھی دکھائی دیتی تھی کہ یہ شخص اقتدار کے اعلیٰ مقام پر رہ کر بھی تکبر کا شکار نہیں ہے۔ ان کا وزیر مالیات ہوتے ہوئے بھی عام ماروتی 800 کو خود چلانا، اپنے کنبہ کے کسی بھی شخص کو اقتدار کے ارد گرد نہ پھٹکنے دینا، نہ ہی اس کا فائدہ لینے دینا... یہ سب قصے سب کو معلوم نہیں تھے، نہ ہی انھوں نے اس کی تشہیر کی۔ لیکن ان کی سادگی والی شبیہ عوام تک پہنچی۔ ہندوستانی عوام اقتدار کے کھلاڑیوں کے 100 خون معاف کر دیتی ہے، ان کے کئی قصور دیکھ کر آنکھیں موند لیتی ہے، لیکن پھر بھی جو شخص اس سے بالاتر ہو اسے اپنے من میں ایک خاص درجہ دیتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لال بہادر شاستری اور عبدالکلام کا قیام ہے۔ تا مرگ ہی سہی، ہندوستانی عوام میں منموہن سنگھ کو ان کے برابر درجہ مل رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں ان کے بعد ان کی کرسی پر بیٹھے لیڈران کے تکبر نے منموہن سنگھ کی شبیہ کو ابھارنے میں مدد کی ہے۔
یہ بات ایک دوسرے فریق پر مزید صاف طور پر لاگو ہوتی ہے۔ جب وہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز تھے، ان کی قیادت پر کئی طرح کے حملے ہوئے۔ انھیں ’پراکسی لیڈر‘ یا ’مکھوٹا‘ بتایا گیا۔ ان کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے عہدہ پر فائز کوئی بھی لیڈر نہ تو پوری طرح آزاد ہوتا ہے نہ اسے بے راہ ہونا چاہیے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ لیڈر پر کن طاقتوں کی لگام تھی۔ آج یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ منموہن سنگھ بھلے ہی سونیا گاندھی کی ہدایت پر چلے ہوں (جو بلاشبہ اس وقت مقبول لیڈر تھیں اور جنھیں انتخاب میں مینڈیٹ ملا تھا)، لیکن ان کی لگام کسی بزنس مین کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ منموہن سنگھ نے اربوں کھربوں روپے کے فیصلے لیے، ان کی کابینہ کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان پر ایک پیسے کی ہیرا پھیری کا الزام نہیں لگا۔ ان کی دوسری حکومت کے دور میں میڈیا نے ان پر کھل کر الزامات عائد کیے، ان کا مذاق بنایا، لیکن انھوں نے میڈیا کا سامنا کرنا بند نہیں کیا۔ ہر اچھے اور برے سوالوں کا جواب دیا۔ ان کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلائی گئی، لیکن انھوں نے کبھی کسی سیاسی مخالفین پر بدلے کی کارروائی نہیں کی، کسی کے گھر انکم ٹیکس یا ای ڈی کا چھاپہ نہیں پڑا۔ مجھ جیسے مخالفین کے تئیں احترام بنائے رکھا۔ ان جملوں کو لکھنے والا (رائٹر) گواہ ہے کہ سڑک پر احتجاج کرنے والوں کے تئیں ان کی محبت و اپنائیت کم نہیں ہوئی۔ یہ صرف ذاتی خوبی نہیں تھی، یہ جمہوری وقار کی ایک قائم روایت تھی۔ آج منموہن سنگھ کے تئیں امنڈ رہی محبت اس جمہوری وقار کا احترام بھی ہے جو وقار ان کے بعد سے گزشتہ 10 سالوں میں تار تار ہو گیا ہے۔
ایک آخری بات... آج منموہن سنگھ جی کو دل سے یاد کرنے والوں میں وہ سیاسی پارٹیاں، لیڈران اور تنظیمیں بھی ہیں جو ان کی معاشی پالیسیوں کے سخت مخالف تھے۔ جب منموہن سنگھ نے نئی معاشی پالیسیوں کو نافذ کیا تھا، تب بیشتر عوامی تحریکوں اور ترقی پذیر سیاسی لیڈران نے اسے عوام مخالف اور ملک مخالف بتایا تھا اور ہماری معیشت تباہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ پرائیویٹائزیشن اور گلوبلائزیشن کی پالیسیوں کی مخالفت آج بھی ترقی پذیر سیاست کا محاورہ ہے۔ لیکن کہیں منموہن سنگھ کے تئیں احترام اس حقیقت کا اعتراف بھی ہے کہ ملک برباد ہونے کی پیشین گوئیاں سچ نہیں ہوئیں۔ نابرابری تو بڑھی، لیکن غریبی بھی کم ہوئی۔ عالمی طاقتوں کے آگے ہندوستان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں ہوا۔ منموہن سنگھ جی کو یاد کرنا کہیں اپنے نظریاتی اصرار کے از سر نو جائزہ کی دبی چھپی خواہش کا اظہار بھی ہے۔
آنجہانی منموہن سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرنا ذاتی وقار، جمہوری روایت اور ایماندار نظریاتی بحث کی ہندوستانی وراثت کو ایک مشکل دور میں یاد کرنا ہے۔
(بشکریہ: نوودے ٹائمز)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔