’نظریات کی چولیں ہلنے کا آغاز تو آر ایس ایس دفتر میں رہتے ہوئے ہی ہو گیا تھا‘... بھنور میگھونشی

’’مجھے سمجھ میں آیا کہ سمجھدار لوگ ہمیشہ ہی ہم جیسے جنونی لوگوں کو لڑائی میں دھکیل کر اپنے اپنے دڑبوں (گھروں) میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہی ان کا بڑپن ہے، شاید انہی چالاکیوں سے ہی وہ بڑے بنتے ہوں گے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھنور میگھونشی

میری عمر اس وقت محض 15 سال کی تھی۔ یہ اکتوبر 1990 کی بات ہے۔ ہمارا واحد ہدف تھا- ہر حال میں ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد کے ڈھانچہ کو گرانا اور رام للا کو آزاد کروانا۔ لگ رہا تھا کہ یہ آزادی کی دوسری جنگ ہے۔ ہم خود کو مجاہد آزادی سمجھ کر من ہی من خوش ہو رہے تھے۔ جوش اور خوشی کے ماحول میں ہم ٹرین پر سوار ہوئے۔ ہم سب کو اپنا اپنا تکٹ دے دیا گیا تھا، یہ کہہ کر کہ اگر کسی وجہ سے بچھڑ جائیں تو خود کا ٹکٹ تو خود کے پاس ہونا ہی چاہیے۔ ہمیں بھی یہ بات ٹھیک لگی۔ اسٹیشن کھچاکھچ بھرا تھا۔ جانے والوں سے زیادہ پہنچانے والے آئے تھے۔ سخت مٹھیوں اور چیختے چہروں نے اپنا پورا دم خم ’وندے ماترم، جئے کارے بجرنگی ہر ہر مہادیو اور جئے جئے شری رام‘ کے نعروں پر لگا رکھا تھا۔ ٹرین کی سیٹی بج چکی تھی۔ ہم نے بھی مٹھیاں باندھی اور پورا زور لگا کر چیخے ’سوگندھ رام کی کھاتے ہیں، ہم مندر وہیں بنائیں گے‘۔

ٹرین سرکنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ ہماری بوگیوں سے بڑے بڑے لوگ بھی سرکنے لگے۔ ارے یہ کیا؟ یہ بھائی صاحب کیوں اتر رہے ہیں؟ یہ پرچارک جی کیا یہیں رہیں گے؟ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے؟ میں نے دیکھا کہ دھیرے دھیرے تمام سارے بڑے لوگ، صنعت کار، سنگھ پرچارک، وی ایچ پی لیڈران اور بی جے پی لیڈران ٹرین سے اتر گئے۔ سب بڑے لوگ ہمیں ایودھیا روانہ کر کے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ پیچھے رہ گئے ہم جیسے جنونی دلت، قبائلی اور پسماندہ و غریب طبقہ کے نوجوان اور کچھ سادھو سَنت، اور ہمیں سنبھالنے کے لیے کچھ ایک چھٹ بھیے لیڈران جو ہمیں بتا رہے تھے کہ بھائی صاحب دوسرے جتھوں کو روانہ کر کے سیدھے ایودھیا پہنچ جائیں گے۔ حالانکہ انھیں نہیں آنا تھا، وہ کبھی نہیں آئے، وہ سمجھدار لوگ تھے، گھر لوٹ گئے۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ سمجھدار لوگ ہمیشہ ہی ہم جیسے جنونی لوگوں کو لڑائی میں دھکیل کر اپنے اپنے دڑبوں (گھروں) میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہی ان کا بڑپن ہے، شاید انہی چالاکیوں سے ہی وہ بڑے بنتے ہوں گے۔

---


نظریات کی چولیں ہلنے کی شروعات میرے سنگھ دفتر میں رہتے ہوئے ہی اچانک ہو گئی۔ نگر پرچارک کے ساتھ ایک دن میں تیرتھ داس جی نامی سویم سیوک کے گھر گیا جو حال میں اوشو رجنیش سے متاثر ہو کر سنگھ کے کاموں میں سستی برتنے لگے تھے۔ ہم انھیں سمجھانے اور واپس صحیح راستے پر لانے گئے۔ ہمیں لگا کہ وہ نظریاتی بھٹکاؤ کے شکار ہو گئے ہیں۔ ان سے نگر پرچارک جی نے لمبی بات چیت کی۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آتے وقت انھوں نے ایک اخبار ’اوشو ٹائمز‘ بطور تحفہ پیش کیا جو پرچارک جی نے تو ہاتھ میں بھی نہیں لیا، لیکن میں لے آیا اور ضلع دفتر میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ پرچارک جی کو یہ برداشت نہیں ہوا۔ انھوں نے ’اوشو ٹائمز‘ میرے ہاتھوں سے چھین کر پھینک دیا اور بولے ’’یہ آدمی نظریات میں بھٹکاؤ لاتا ہے، گمراہ کر دیتا ہے۔ اس کو زندگی میں کبھی مت پڑھنا۔‘‘ میں حیران رہ گیا۔ میرے من میں یہ سوال اٹھا کہ پڑھنے سے نظریات میں بھٹکاؤ کیسے آ سکتا ہے؟ اس ایک واقعہ نے میری دلچسپی اوشو کے ادب میں پیدا کر دی۔ میں نے چوری چھپے اوشو ٹائمز پـڑھنا شروع کر دیا۔ اب میرے ذہن کی دیگر کھڑکیاں بھیکھلنے لگیں اور اس طرح سنگھ کے پاکیزہ اور صاف نظریہ کے بالآخر تباہ ہونے کی شروعات ہوئی۔

---

ایودھیا میں کارسیوکوں اور بھیلواڑا میں مارے گئے دونوں ہندوؤں کو ہوتاتما (شہید روح) قرار دیا جا چکا تھا۔ اب ان کی ہڈیوں کی ’کلش یاترا‘ گاؤں گاؤں گھمائی جا رہی تھی۔ یہ میرے گاؤں بھی آ پہنچی۔ اجلاس ہوئے۔ ہماری دلت بستی میں یہ پہلا کامیاب جلسہ تھا آر ایس ایس کا۔ جلسہ کے اختتام پر میں نے سبھی لوگوں کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ اس پر وہ تھوڑا جھجکے۔ مجھے سیوا بھارتی کے اُس وقت کے ضلع چیف نند لال اور سنگھ کے ایک دیگر عہدیدار فوراً ایک طرف لے گئے اور بہت ہی دھیمی آواز میں بولے ’’بھائی! ہم تو آپ جب بھی چاہو گے تب آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں بیٹھ کر ایک ہی تھالی میں کھانا کھا لیں گے، لیکن آج ہمارے ساتھ سادھو سنت اور دیگر لوگ ہیں۔ وہ یہ منظور نہیں کریں گے کہ ہم نے انھیں بتائے بغیر کسی نچلے طبقہ کے گھر کھانا کھلا دیا ہے۔ وہ ناراض ہو کر یاترا چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا۔ میرے ذہن میں نظریات کی کئی آندھیاں ایک ساتھ چل رہی تھیں۔ آخر میں انھوں نے کہا ’’آپ ایسا کرو کہ کھانا پیک کر کے گاڑی میں رکھوا دو۔ اگلے گاؤں میں پروگرام کے بعد سب کو بیٹھا کر کھلا دیں گے۔‘‘ مطلب صاف تھا کہ وہ بغیر یہ بتائے کہ یہ مجھ دلت سویم سیوک کے گھر کا بنا کھانا ہے، اسے خاموشی سے سب کو اگلے گاؤں میں کھلا دیں گے۔ میں نے کھانا پیک کروا دیا۔


قتل کی رات ابھی گزری ہی تھی کہ صبح کا خوفناک سورج اپنی تیز شعاعوں کے ساتھ موجود تھا۔ میرے ساتھی سویم سیوک پروشوتم شروتریہ ’استھی کلش یاترا‘ کے ساتھ ہی چل رہے تھے۔ علی الصبح وہ گھر آ پہنچے۔ وہ میرے امبیڈکر ہاسٹل کے دنوں کے پڑوسی بھی تھے۔ شاعر ہونے کے ناطے اچھے دوست تھے۔ ہم لوگ آزاد نگر شاخہ میں ساتھ ساتھ جاتے تھے۔ ہر بات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔ گہری دوستی تھی۔ وہ صبح کھیر کی کیتلی لے کر لوٹے تھے۔

انھوں نے جو کچھ مجھے بتایا وہ حیرت انگیز اور ناقابل تصور تھا۔ پروشوتم جی نے بتایا کہ آپ کے یہاں سے لے جائی گئی کھیر پوڑی بھگوان پورہ موڑ پر سڑک کے کنارے پھینک دی گئی اور رات کا کھانا کسی رام سوروپ شرما ویدیہ کے ہیاں بنوا کر دیر رات کھایا گیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں آپ کو یہ بات نہیں بتاؤں۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتا۔ آپ کے کھانے کو کھایا نہیں گیا بلکہ پھینک دیا گیا۔ میں نے پروشوتم جی سے صاف کہا کہ کچھ بھی ہو، لیکن سنگھ کے سویم سیوک اتنے نسل پرست اور مطلبی نہیں ہو سکتے ہیں۔ آپ مذاق کرنے کے لیے اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یقین نہیں ہوتا تو چل کر دیکھ لو۔ کچھ نہ کچھ تو بچا ہوا وہاں مل ہی جائے گا۔ ہم دونوں سائیکل پر سوار ہوئے اور بھگوان پورہ موڑ پر پہنچے۔ جا کر دیکھا تو پروشوتم جی صحیح ثابت ہوئے۔ واقعی میرے گھر سے گایا کھانا سڑک کنارے بکھرا ہوا تھا جسے چیل، کوے، کتے، چینٹیاں بغیر کسی تفریق کے تقریباً ختم کر چکے تھے۔ یہ دیکھنا میری برداشت کرنے کی حد کے باہر تھا۔ اس شام ’استھی کلش یاترا‘ برہمنوں کی سریری پہنچنے والی تھی۔ میں نے وہاں جا کر کھل کر بات کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اب بہت ہو چکا تھا۔ نتیجہ خیز جنگ کا وقت آ پہنچا تھا۔ لڑائی شروع ہو گئی تھی، صرف اعلان باقی تھا۔

---

شہر آ کر میں نے سوچنا شروع کیا۔ خود سے ہی پوچھنے لگا کہ میں کیوں مر رہا تھا اور کن کے لیے مر رہا تھا؟ کس بات کے لیے؟ میرے مر جانے سے کس کو فرق پڑنے والا تھا؟ ٹھنڈے دماغ سے سوچا، تو اپنی تمام بے وقوفیوں پر سر پیٹ لینے کو من کرنے لگا۔ خوب ذہنی اتھل پتھل، غور و خوض اور تھک جانے کی حالت تک کشمکش کے بعد میں نے طے کیا کہ میں سنگھ کو نہ صرف پوری طرح مسترد کر دوں گا بلکہ ان کے ذریعہ میرے ساتھ کی گئی نسل پرستانہ تفریق کو بھی سب کے سامنے ظاہر کروں گا۔ اس دوغلے ہندوتوا اور پاکھنڈی ہندو راشٹر کی اصلیت سے سب کو واقف کروانا میرا آگے کا کام ہوگا۔ میں نے عزم کر لیا کہ سنگھ پریوار کے چہرے سے فرضی ہم آہنگی کے نقاب کو نوچ کر اس کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے لاؤں گا۔ میں نے اپنی تمام محدود صلاحیتوں کو جانتے ہوئے بھی یہ عزم کر لیا تھا کہ میں سنگھ پریوار کے پاکھنڈی ہندوتوا کو بے نقاب کروں گا اور اس طرح اپنی پوری طاقت کے ساتھ تنہا ہی آر ایس ایس جیسے بڑے ادارہ سے دو دو ہاتھ کرنے نکل پڑا۔

---


جو باتیں ڈاکٹر امبیڈکر کے بارے میں سنگھ کی شاخہ میں بتائی گئی تھیں، ان سے ٹھیک برعکس باتیں اب امبیڈکر کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں چکرانے لگ گئیں۔ پہلی ہی کتاب ’ریڈلس آف ہندوازم‘ نے تو دماغ خراب ہی کر دیا۔ پھر تو بابا صاحب کا جو بھی ادب جہاں بھی ملا، اسے پڑھ چلا۔ بابا صاحب کی زندگی کے تلخ واقعات سے دو چار ہونے کا موقع ملا۔ ’جاتی بھید کا اُچھید‘ کتاب نے مجھے ہندوستان میں ذات پات جیسے نفرت انگیز نظام کے بانی برہمن واد کو سمجھنے کا موقع دیا۔ اب مجھے آر ایس ایس کا پورا کھیل واضح طور سے سمجھ میں آنے لگا تھا۔ ان کے ’ہم آہنگی‘ سے متعلق نعرے میں چھپی سماجی ہم آہنگی اور انصاف و سماجی تبدیلی کی دھار کو کند کرنے کی سازش بھی سمجھ میں آنے لگی۔ دلتوں کو ’وَنچت‘ اور قبائلیوں کو ’وَنواسی‘ نام دینے کی ان کی سیاست بھی سمجھ میں آنے لگی۔ سنگھ کی شاخوں میں گائے جانے والے گیت ’منشیہ تو بڑا مہان ہے، تو منو کی سنتان ہے‘ کے خلاف بھی روح کی گہرائیوں سے عدم اعتراف کا جذبہ اٹھا کہ جس منو نے ذات پر مبنی پورے نظام کو تیار کیا، شودروں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ اچھوتوں کو جانور سے بھی کم سمجھا، اس شخص کو مہرشی یا بھگوان منو کہہ کر انسانوں کے آبا و اجداد بتانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ میرے دماغ کے بند دروازے اب کھلنے لگے تھے۔ میں نے منو اسمرتی کو پڑھا تو بابا صاحب صحیح لگے۔ اس کو جلانا ضروری لگا۔ جوں جوں میں بابا صاحب کو پڑھتے جاتا، ویسے وسے میرے انقلابی سوچ اور زیادہ مضبوط ہوتے جاتے تھے۔ امبیڈکروادی ادب نے مجھ میں ترقی پذیری کے بیج بو دیے۔ دلت نظریہ نے میری آر ایس ایس کے خلاف اب تک کی لڑی گئی نجی لڑائی کو ایک سماجی وقار اور شناخت کی اجتماعی لڑائی بنانے میں مدد کی۔ پھر تو کبیر، پھولے، پیریار کو بھی پڑھا۔ اب میں صرف باغی نہیں تھا۔ اب بدلے کی آگ تبدیلی کی چاہ میں بدلنے لگی تھی۔

---

میں دلت اور قبائلی سماج کے ان نام نہاد بھائی صاحبوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو بڑے فخر کے ساتھ گنویش پہن کر کے خود کو سچا سویم سیوک ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں کہ سنگھ نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنی 95 سالہ زندگی میں ایک بھی ایسی تحریک یا مہم کیوں نہیں چلائی جو دلتوں کے ساتھ چھوا چھوت اور تفریق کو ختم کرتا ہو؟ ذات کو مٹانے کی بات کبھی کیوں نہیں کی سنگھ نے؟ دلتوں کے مندر میں داخلے، یگیہ ہون میں بیٹھنے اور گھوڑی پر دلت دولہے کی بارات اور اپنے ہی گھر کے باہر کھاٹ پر بیٹھنے کی لڑائی کے وقت سنگھ کون سے دَڑبے میں چھپ جاتا ہے؟ ہر ذات کے لیے پشکر سے لے کر گنگا تک الگ الگ ’اسنان گھاٹ‘ اور ہر گاؤں میں ہر ذات کے لیے الگ الگ شمشان ختم کیوں نہیں ہو پائے آج تک؟ ارے گایوں کے لیے تحریک چلانے اور چوہے، بیل، سانپ، گویروں کی پوجا کرنے والے سنگھیوں کبھی تو اپنے ہی جیسے ان دلت وَنچت انسانوں کی برابری کے لیے بھی تو کوئی مہم شروع کرتے؟ لیکن سنگھ نے یہ کبھی نہیں کیا۔ وہ آج بھی ذات کے نظام کو برقرار رکھنے کے حق میں پوری بے شرمی کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہر طرح کے ریزرویشن کے خلاف ہے اور پروموشن میں ریزرویشن تو اسے قطعی منظور نہیں ہے۔ وہ تو درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد ظلم) قانون تک کو ختم کر دینے کے حق میں ہے۔ ایسے سنگھ اور اس کے ذریعہ بنائے جا رہے ہندو راشٹر میں دلت قبائلی لوگوں کی جگہ کہاں ہو سکتی ہے؟ یہ خود سمجھی جا سکنے والی بات ہے۔

(نوارُن پرکاشن سے شائع دلت ایکٹیوسٹ بھنور میگھونشی کی ہندی خود نوشت ’میں ایک کار سیوک تھا‘ کے کچھ اقتباسات)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔