ستیہ پال کا ستیہ وچن!

قومی سلامتی، دیش بھکتی اور ایمانداری کی بنیاد پر پردھان سیوک صاحب کی شبیہ کو ایک قدآر لیڈر کے طور پر بنائی گئی تھی، لیکن ستیہ پال ملک کے انٹرویو نے اس کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا۔

ستیہ پال ملک، تصویر آئی اے این ایس
ستیہ پال ملک، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ ملک کے انٹرویو نے حضرت امیرمینائی کے اس مشہور مصرعے ’جو چپ رہے زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘ کی عملی تشریح پیش کر دی ہے۔ کہاں تو پردھان سیوک صاحب ستیہ پال کو ’استیہ‘ کی تلقین کرتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور کہاں وہی ستیہ پال ملک جب ’ستیہ‘ بولنے پر آتے ہیں تو پلوامہ میں شہید ہوئے 40 جوانوں کا لہو ایک ساتھ پکارنے لگتا ہے۔ پردھان سیوک صاحب اپنے اور اپنی پارٹی کے علاوہ ہر کسی کو بدعنوان قرار دیتے ہیں لیکن ستیہ پال یہ کہہ کر خود ان کے ہی دعوے کو ان پر الٹ دیتے ہیں کہ انہیں کرپشن سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔ ستیہ پال ملک کے اس ایک انٹرویو نے پردھان سیوک کی اس شبیہ کو زمیں بوس کر دیا ہے کہ جس کو بنانے میں لاکھوں کرڑوں روپئے خرچ ہوئے ہیں۔

جن باتوں کی بنیاد پر پردھان سیوک صاحب کا قد پورے ملک میں سب سے بڑے اور دبنگ لیڈر کا بنایا گیا وہ قومی سلامتی، دیش بھکتی اور ایمانداری ہیں، لیکن افسوس کہ یہ سب ایک مفروضہ بن گئے۔ ایک جانب وہ چین کی دراندازی پر ایک لفظ نہیں بول پاتے ہیں لیکن دعویٰ کرتے ہیں ’دیش سُرکشِت ہاتھوں میں ہے‘۔ دیش بھکتی کے بارے میں دعویٰ ایسا کہ افواج کے دفاتر پر ’دیش کو سمرپت‘ کا بورڈ لگایا گیا گویا ان سے پہلے ملک کی فوج کسی اور کو سمرپت (وقف) تھی، جبکہ حالت یہ ہے کہ فوج کے جوانوں کو ہیلی کاپٹر تک فراہم نہیں کرسکتے۔ یہی حال ایمانداری کا بھی ہے۔ ایک طرف یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ مگر دوسری جانب ملک کے انفراسٹرکچر کو اپنے دوستوں کو تفویض کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ پردھان سیوک صاحب خود اپنے ہی دعووں کے ہی حصار میں گھر گئے ہیں؟


ستیہ پال ملک نے اپنے انٹرویو میں جو باتیں کہی ہیں، ان کی بنیاد پر سوال اٹھنے لازمی تھے اور اٹھ بھی رہے ہیں۔ لیکن کمال ہے کہ ملک کی تاریخ کے سب سے قدآور اور دبنگ پردھان سیوک ان پر ایک لفظ بھی نہیں بول پا رہے ہیں۔ کانگریس کی جانب سے پلوامہ کے شہیدوں پر اٹھائے گئے سوال تو ایسے ہیں کہ اس سے قومی سلامتی اور دیش بھکتی دونوں کا موضوع جڑا ہوا ہے۔ کیا ملک کو یہ جاننے کا حق نہیں ہے کہ جب دیش سرکشت ہاتھوں میں تھا تو پھر پلوامہ میں تین سو کلو آرڈی ایکس کہاں سے اور کیسے، یہ خبر دہشت گردوں تک کیسے پہنچی کہ فوج کا قافلہ کہاں سے گزرنے والا ہے؟ کیا محض دعووں کے چادر سے 40 جوانوں کی شہادت کی وجہ کو چھپایا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوالات مرکز کی مودی حکومت اور بی جے پی کے دعووں کو ایک مفروضہ ثابت کرتے ہیں لہذا خاموشی رہنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔

کچھ لوگ ستیہ پال ملک کے اس بیان کو ایک انکشاف تصور کر رہے ہیں کہ پردھان سیوک کو کرپشن سے کوئی عار نہیں بشرطیکہ وہ کرپشن بی جے پی کا ہو۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ بدعنوانی کو ناپنے والے اس پیمانے سے پورا ملک بہت پہلے سے واقف ہے۔ تفتیشی ایجنسیوں خاص طور سے ای ڈی و انکم ٹیکس کی ان کارروائیوں کو کیا کوئی شخص حق بجانب تصور کرسکتا ہے کہ پندرہ بیس سال پرانی فائلوں کو ازسرِ کھول کر اپوزیشن کے لیڈروں کو گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ یہی اپوزیشن کے بدعنوان لوگ جب بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں تو گویا وہ گنگا نہا لیتے ہیں۔ ستیہ پال ملک کو تین سو کروڑ روپئے کی پیش کش کرنے والوں میں سے تو ایک صاحب سنگھ بھی ہیں۔ پردھان سیوک صاحب تک اس کی شکایت بھی پہنچی، لیکن معاملہ چونکہ اپنے کی بدعنوانی کا تھا اس لیے اس پر بھی خاموشی برتی گئی۔ سچائی یہ ہے کہ پردھان سیوک صاحب کھاتے بھی ہیں اور کھانے بھی دیتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ وہ کھلانے والا کوئی سرمایہ دار ہو اور کھانے والا ان کی اپنی ہی پارٹی کا ہو۔


ایسے میں اگر راہل گاندھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اڈانی گروپ میں شیل کمپنیوں کے ذریعے جو 20ہزار کروڑ روپئے لگائے گیے وہ کس کے ہیں یا اڈانی سے پردھان سیوک صاحب کا کیا رشتہ ہے؟ تو صاحب کو پانی تو پینا ہی پڑے گا نا۔ ایسے سوالوں کا جواب دے کر وہ بھلا کیوں اپنی لاکھوں کروڑوں روپئے سے بنائی گئی شبیہ کو خراب کریں گے۔ لیکن برا ہو ستیہ پال ملک کا جو ایک وقت میں خود پردھان سیوک کے چہیتے تھے، انہوں نے ہی انہیں جموں وکشمیر پھر گوا کا گورنر بنایا، پردھان سیوک کے سب سے قدآور، دبنگ اور ایمانداری کی شبیہ کے غبارے میں سوئی چوبھا دی، اب یہ غبارہ پچکنا شروع ہوگیا ہے۔ اب پردھان سیوک صاحب کے کٹر بھکت بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ ’تو کیا ہوا، پہلے کرپشن نہیں تھا کیا؟‘ گویا اب وہ بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان کے صاحب کا ’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ جھوٹا ہے۔

ستیہ پال ملک کے انٹرویو سے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں ان کے جواب کے لیے کانگریس نے ’شرم کرو مودی شرم کرو‘ کی تحریک شروع کر دی ہے۔ مہاراشٹر میں تو کانگریس نے تمام ضلعی ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاج کرنے لگی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سوالات ان لوگوں تک بھی پہنچ رہے ہیں جو پردھان سیوک کو نہایت ایماندار سمجھتے رہے ہیں۔ اس لیے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سوالات 2024 پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ ستیہ پال ملک کے ستیہ وچن سے قومی سلامتی، دیش بھکتی اور ایمانداری کے سہارے پردھان سیوک کی جو فرضی شبیہ بنائی گئی تھی وہ اب ختم ہونے لگی ہے۔ اسی شبیہ کے سہارے 2019 میں خطرناک اکثریت حاصل کی گئی تھی اور اب اسی کے کٹہرے میں پوری بی جے پی گھری ہوئی ہے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔