الیکشن کمیشن نے اپنا وقار مٹّی میں ملا دیا... سہیل انجم

اشوک لواسا نے چیف الیکشن کمشنر کے نام تین خطوط لکھے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن جب ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو انھوں نے اعلان کر دیا کہ وہ کمیشن کی میٹنگوں میں شرکت نہیں کریں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

موجودہ حکومت میں جس طرح متعدد آئینی ادارے حکومت کے اشارے پر کام کر کے اپنے وقار کو ملیامیٹ کر رہے ہیں اسی طرح الیکشن کمیشن بھی اپنی عزت خاک میں ملا رہا ہے۔ کمیشن کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ اس کے اندرونی اختلافات منظر عام پر آگئے، میڈیا میں چھا گئے اور عوام کی زبانوں پر چڑھ گئے۔ دوسرے نمبر کے الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے کمیشن کے طریقہ کار کی کھل کر مخالفت کی اور اپنی آواز بلند کرنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کرنے کی بات کہی۔

الیکشن کمیشن ایک خود مختار اور آزاد آئینی ادارہ ہے۔ اس کو بہت اختیارات حاصل ہیں۔ اگر حکومت اس کو اپنے اشارے پر چلانا چاہے تو کمیشن سختی سے انکار کر سکتا ہے۔ اس کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر بڑے سے بڑے سیاست داں اور افسر کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن پہلے عملی طور پر ایسا نہیں تھا۔ لیکن ایک انتہائی دبنگ الیکشن کمشنر ٹی این سیشن نے کمیشن کی طاقت کو سمجھا اور اس کو حاصل اختیارات کا استعمال کیا۔ انھوں نے کمیشن میں متعدد اصلاحات کیں جس کی وجہ سے کمیشن کا وقار پوری دنیا میں بلند ہوا۔


لہٰذا جب بھی یہاں انتخابات ہوتے ہیں تو پوری دنیا کی نگاہیں ان پر لگی رہتی ہیں۔ صاف ستھرے اور غیر جانبدار انتخابات کرانے کے لیے یہاں کا کمیشن پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سیشن کے بعد جے ایم لنگدوہ، ایم ایس گل اور ایس وائی قریشی نے اس کے وقار میں اضافہ کیا تھا۔ لیکن موجودہ کمیشن نے اس وقار کو اپنے اقدامات سے ملیامیٹ کر دیا۔

انتخابات کے آغاز سے قبل سے ہی اس کے فیصلے تنازعات میں گھرے رہے اور اس پر حکومت کی طرفداری یا حکومت کے حق میں فیصلے کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ جب کمیشن نے انتخابی تاریخوں کو آگے بڑھایا تو پہلی بار اس پر حکومت کی طرفداری کا الزام لگا۔ اس الزام کی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو متعدد اسکیموں اور پروجکٹوں کا اعلان کرنا تھا۔ اگر الیکشن اپنے وقت پر ہوتے تو وہ ایسا نہیں کر پاتے۔


کمیشن نے شروع ہی میں یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران نہ تو فوج کا نام لے کر ووٹ مانگا جا سکتا ہے نہ ہی مذہب کا نام لے کر۔ لیکن پلوامہ اور آپریشن بالاکوٹ کے معاملات انتخابی مہم میں چھائے رہے۔ ان معاملات کو وزیر اعظم مودی اٹھاتے رہے اور ان کے اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگتے رہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بار بار یہ شکایت کی جاتی رہی کہ مودی، امت شاہ اور بی جے پی کے دیگر رہنما ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن کمیشن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا۔

جب سپریم کورٹ نے اسے پھٹکار لگائی تو اس نے ایس پی، بی ایس پی اور بی جے پی کے کچھ لیڈروں کے خلاف کارروائی کی اور ان کی انتخابی مہموں پر کچھ گھنٹوں کے لیے پابندی لگا دی۔ لیکن اس نے مودی اور شاہ کے خلاف شکایتوں پر بیس پچیس روز تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ اپوزیشن تقریباً روزانہ کمیشن کے دروازے پر دستک دیتا رہا اور مودی شاہ کی شکایت کرتا رہا لیکن کمیشن نے چپی سادھ لی تھی۔ جب زیادہ ہنگامہ ہوا تو فیصلہ تو کیا گیا لیکن دونوں کو کلین چٹ دے دی گئی۔


بعد میں یہ راز کھلا کہ دو نمبر کے کمشنر اشوک لواسا نے مودی اور شاہ کو کلین چٹ دینے کی مخالفت کی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ مودی نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا ان کو نوٹس جاری کیا جائے۔ وزیر اعظم کے خلاف جو چھ شکایتیں کی گئی تھیں ان میں سے چار شکایتوں میں لواسا نے مودی کے خلاف اپنی رائے دی۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر اور تیسرے کمشنر نے مودی شاہ کی حمایت میں فیصلہ کیا اور اکثریتی ووٹ سے دونوں کو الزامات سے بری کر دیا گیا۔

اشوک لواسا نے چیف الیکشن کمشنر کے نام تین خطوط لکھے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن جب ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو انھوں نے اعلان کر دیا کہ وہ کمیشن کی میٹنگوں میں شرکت نہیں کریں گے۔ وہ اسی وقت شرکت کر سکتے ہیں جب ان کی رائے کو کمیشن کے آرڈر میں جگہ دی جائے اور اسے ریکارڈ پر لایا جائے۔


ان کا یہ قدم کمیشن کی کارروائی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا اور چار مئی کے بعد سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی شکایات پر غور کرنے کے لیے کوئی میٹنگ نہیں ہو سکی۔ حالانکہ چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے ایک بیان دے کر اسے ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا کہ سبھی کمشنر ایک جیسے یا ایک دوسرے کے ہمزاد نہیں ہو سکتے۔ لیکن انھوں نے اس موقع پر اسے اٹھانے پر اپنی ناراضگی بھی ظاہر کی اور کہا کہ اسے میڈیا میں نہیں لے جانا چاہیے تھا۔

ادھر اطلاعات کے مطابق ٹی این سیشن نے جو کہ بیمار چل رہے ہیں چیف الیکشن کمشنر کو فون کرکے پھٹکارا اور کہا کہ تم کمیشن کو کیوں برباد کر رہے ہو۔ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ پچیس برسوں میں سیشن نے کسی کمشنر کو پہلی بار فون کیا۔


اپوزیشن نے کمیشن پر بار بار یہ الزام عاید کیا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ادارے کی حیثیت سے نہیں بلکہ بی جے پی کے ایک ادارے کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود کمیشن کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کمیشن بی جے پی کے حق میں کس طرح کام کر رہا ہے اس کا اندازہ صرف اس ایک فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے مغربی بنگال کے تعلق سے کیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی کے لوگ مغربی بنگال سے باہر کے لوگوں کو وہاں بلا کر ہنگامہ کرواتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے تشدد بھی ہوا اور کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

لیکن جب امت شاہ کے روڈ شو میں زیادہ ہنگامہ ہوا تو اگلے روز انھوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے کمیشن پر جانبداری برتنے کا الزام عاید کر دیا۔ یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جیسا الزام تھا۔ کمیشن تو بی جے پی کے ہی حق میں فیصلے سنا رہا تھا۔ اس کے باوجود شاہ جی کو اس سے شکایت تھی۔ لہٰذا کمیشن نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مغربی بنگال میں انتخابی مہم کو مقررہ وقت سے بیس گھنٹے قبل ہی روک دیا۔ لیکن اس میں بھی اس نے چالاکی کی اور اسی روز مودی کی جو دو ریلیاں ہونے والی تھیں ان کو ہونے دیا اس کے بعد روک لگائی۔


چیف الیکشن کمشنر کے اس رویے کو سمجھنے کے لیے ان کی ملازمت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ وہ راجستھان کیڈر کے آئی اے ایس افسر ہیں۔ وہ وہاں وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت میں سکریٹری رہ چکے ہیں۔ آئی پی ایل کے سابق کمشنر اور ملک سے بھاگے ہوئے للت مودی کا بڑا گہرا تعلق وسندھرا راجے کے سابقہ حکومت سے رہا ہے۔ انھوں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں آئی پی ایل کا دفتر بنا رکھا تھا جہاں ذرائع کے مطابق حکومت کے افسران فائل لے کر ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ فائل لے کرجانے والوں میں ایک افسر سنیل اروڑہ بھی تھے۔

اس کے بعد مرکز میں مودی حکومت قائم ہونے کے بعد انھیں یہاں بلا لیا گیا۔ وہ کئی عہدوں پر رہے۔ اس سے قبل وہ بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق نائب صدر بھیروں سنگھ شیخاوت کے ساتھ بھی کام کر چکے تھے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس والوں سے ان کے بڑے قریبی رشتے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان رشتوں کی وجہ سے ہی وہ حکومت یا بی جے پی حامی فیصلے کرنے پر مجبور ہوئے۔


جبکہ اشوک لواسا ہریانہ کیڈر کے آئی اے ایس افسر ہیں اور وہ بھی مرکزی حکومت میں کئی عہدوں پر فائز رہے چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے حکومت یا بی جے پی کی طرفداری کرنے کو اپنا وطیرہ نہیں بنایا۔

بہر حال اب انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے۔ آخری مرحلے کی پولنگ بھی ختم ہو گئی۔ اب 23 مئی کو نتائج آنے والے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام نے کیا فیصلہ دیا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو لیکن موجودہ الیکشن کمیشن نے جس طرح حکومت کی حاشیہ برداری کی اس سے پوری دنیا میں اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ کوئی ٹی این سیشن آئے اور اس کے وقار کو ایک بار پھر بحال کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 May 2019, 10:10 PM