’کرونی کیپٹلزم‘ کو مٹانے کا وعدہ کرنے والے ہی اس کے پہریدار بن گئے...مرنال پانڈے

کیا حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ کبھی قومی سیکورٹی کا نام لے اور کبھی حزب مخالف لیڈر کو بین الاقوامی سازش کا حصہ بتا کر خود پر لگ رہے ’کرونی کیپٹلزم‘ کے الزامات کو رفع دفع کر اپنی کرسی بچانے کی کوشش کرے؟

وزیر اعظم نریندر مودی 
وزیر اعظم نریندر مودی
user

مرنال پانڈے

ستمبر کا مہینہ حکومت کے لیے خاصہ تکلیف دہ ثابت ہوا ہے، اور وہ ملک کو آنے والے وقت کے لیے کچھ خطرناک اشارے دے رہا ہے۔ فرینکوئس اولاند کے چند ایک بیانات نے اگر ہندوستان-فرانس کے رشتوں میں ایک بحران کی حالت پیدا کر دی ہے تو ساتھ ہی فرانس کے سابق صدر اور ہندوستانی اپوزیشن کے الزامات ثابت ہونے پر رافیل معاہدہ اس صدی میں ہندوستان کا سب سے بڑا گھوٹالہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پڑوسی ملک پاکستان اندر ہی اندر خوش ہو رہا ہے اور پھبتیاں کسے جا رہا ہے۔

کچھ نئے طوفان بھی اس درمیان اُبھر رہے ہیں۔ ایک مذہبی کٹرپن کا طوفان ہے جس میں بی جے پی کے کئی چھوٹے بڑے لیڈر لگاتار متنازعہ بیان دے کر آگ بھڑکا رہے ہیں۔ نازک وقت میں قومی صدر نے بنگلہ دیشیوں کو ’ہندوستان کو کھا رہے دیمک‘ کہہ کر سرحد پار ایک اور اچھے پڑوسی کو ناحق ناخوش کر دیا ہے۔ عدالت میں زیر غور رام جنم بھومی کا مسئلہ بھی ’مندر بن کے رہے گا‘ جیسے بیانات کی وجہ سے ماحول گرما رہا ہے۔ ایک اور آندھی کسانوں کا عدم اطمینان ہے۔ سبز انقلاب کی خوشحالی اب پنجاب میں بھی نہیں بچی ہے۔ مدھیہ پردیش میں وہ مٹی کے مول بنا دی گئی اپنی پیداوار سڑکوں پر پھینک رہے ہیں۔ ہریانہ میں وہ راستے روکتے ہیں، گجرات میں ریلیاں کر رہے ہیں۔ بکوالی کی خوردہ قیمتوں کی گاؤں اور شہر کے درمیان غیر منصفانہ نابرابری پر جائز سوال اٹھا رہے ہیں، اور کسانوں کی اموات پر براہ راست حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سرگرمیاں ہیں جو بی ایس پی کے بیانات اور مقامی پارٹیوں سے اتحاد کی خبروں سے پیدا ہو رہی ہیں۔ کیا آریاورت سے الگ جنوب، جہاں اعلیٰ ذات مخالف آندھی پہلے نچلی ذات کے ووٹوں کو یکجا کر چکی ہے، اور بہار جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے اقتدار میں ہیں، یہاں بھی بہن جی کانگریس اور بایاں محاذ کے ساتھ ہاتھ ملائیں گی؟ اگر یہ ہوا تو طاقتور بی جے پی مخالف خیمہ کی تلاش کرتے اقلیتوں کا بھی اُدھر بھاگنا روکے نہیں رکے گا۔ ایسا اتحاد پہلے سے کہیں زیادہ مشکل اور جارحانہ ہو سکتا ہے کیونکہ درمیانِ سڑک پر لڑتے وقت بیچ بچاؤ کے گلیارے تیار کرنے والے مہذب بزرگ اشخاص کے گھیرے کو بی جے پی باہر-اندر بے دردی سے توڑ چکی ہے۔

معزز وزیر اعظم کی خاموشی اب ٹوٹنی چاہیے۔ وزیر دفاع کو مورچہ پر اتار کر کہلوایا گیا کہ حکومت سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ملک کو جنگی طیاروں کی قیمت نہیں بتا سکتی۔ لیکن اپوزیشن اور میڈیا کے ذریعہ یہ ساری جانکاری فرانس حکومت سے حاصل کرنے سے وہ نہیں روک پائے۔ اس کے بعد معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا اور وزیر دفاع جی نے بھڑک کر کہا کہ قومی سیکورٹی کے مدنظر قیمت کتنی طے ہوئی یہ جانکاری پارلیمنٹ کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ وزیر اعظم جی کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب ملتا اس سے پہلے سیشن ہی ختم ہو گیا۔ ظاہر تھا کہ مسئلہ کو اب سڑک سے ٹی وی اسٹوڈیو تک آنا ہی تھا۔ ٹی وی پر دوبارہ اور زیادہ غصے سے وزیر دفاع نے کہا کہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ فرانس کی دسالٹ کمپنی کے ذریعہ منتخب ایک (جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے بنی) ہندوستانی کمپنی کے سلیکشن میں حکومت ہند کا ہاتھ تھا، قطعی جھوٹ ہے۔ پارٹی ترجمان نے ہر بار کی طرح سیدھے نسل پرستی کی مالا جپنا شروع کر دی اور مسئلہ کو ’کانگریس نے تب یہ کیا تھا، تب وہ کیا تھا‘ کہہ کر بحث کا رخ چالاکی سے دوسری طرف موڑ دیا۔ مجموعی طور پر حکومت نے سچائی کو سامنے رکھنا کسی بھی حال میں منظور نہیں کیا۔ اور جو بھی جانکاری دی وہ فرانس سے براہ راست آئے بیانات، صحافیوں کو دیے گئے وہاں کے سابق صدر اور دسالٹ کمپنی کے بڑے افسران کے انٹرویوز سے جھوٹی ثابت ہو چکی ہے۔ اور جب خود مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی سرکاری کمیٹی بھی سارے کاغذات کا مطالبہ کر رہی ہو تو اپوزیشن کے ذریعہ ایک جے پی سی بنا کر مسئلہ کو باقاعدہ جانچ کے لیے سپرد کرنے کا مشورہ دینا ہی تھا۔ لیکن حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جے پی سی کیوں؟ شک کرنے والی اپوزیشن یہ معاملہ براہ راست عدالتی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کیوں نہیں لے جاتی؟ دلیل میں بھرپور عقلمندی چھپی ہے۔ عدالتی جانچ کا سیدھا مطلب ہوگا کہ جتنے ماہ یا برس یہ جانچ جاری رہے گی، حکومت معاملہ عدالت میں ہونے کی بات کہہ کر رافیل معاہدہ پر پارلیمنٹ سے سڑک تک کوئی بحث نہیں ہونے دے گی۔ ایک بار پارلیمانی انتخاب ہو گئے پھر رہبر سے کون پوچھ سکتا ہے کہ بتا یہ کاررواں کیوں لُٹا؟

مان لیجیے اس معاہدہ کے وقت غیر موجود وزیر زراعت، وزیر قانون، کپڑا اور دفاعی وزیر کو ٹی وی پر حکومت کے دفاع میں ناحق جھونکنے کی جگہ معزز وزیر اعظم جی اپنی ہفتہ واری ’من کی بات‘ میں تمام فلسفیانہ باتوں کے درمیان صرف اتنا بھر ہی کہہ دیتے کہ یہ تنازعہ بے کار ہے۔ وہ ثابت کرتے کہ خرید ضابطوں کے مطابق ہوئی ہے اور جلد ہی فرانس کی ہی طرح ہندوستان حکومت بھی خریداری کی سبھی تفصیلات باقاعدہ منظر عام پر لائے گی۔ تب یہ معاملہ اتنا طول نہ پکڑتا۔ آپ ہی کہیں کیا یہ مناسب ہے کہ دسالٹ اور ایک عدد ہندوستانی پرائیویٹ کمپنی کی رشتہ داری میں آئین کے ستون اور ملک کی بڑی ہستی یوں پھنستی نظر آئیں؟ لیکن خاموشی جاری رہے؟ اگر ہندوستانی اعلیٰ قیادت خود سے متعلق کوئی سچائی چھپانے کی خواہشمند نہیں ہے تو اس شک کی جڑ کو ہی ختم کر دیا جانا چاہیے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے وزیر سپریم کورٹ کی کسی بنچ کی اوٹ میں چھپنا چاہتے ہیں یا اراکین پارلیمنٹ سے شور کروا کر ادھورے دستاویزات کے دَم پر پارلیمنٹ میں بحث کو ہی ٹھپ کرانا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، اولاند یا عمران یا سوشل میڈیا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ آئین کے دائرے میں چل رہی کسی حکومت کو دستبردار کریں۔ لیکن قارئین! آپ ہی کہو کہ حکومت کی ’تھیلی شاہوں‘ سے ملی بھگت یعنی کرونی کیپٹلزم کو مٹانے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئی حکومت کو کیا یہ حق ہے کہ اپنی باری آنے پر وہ کبھی قومی سیکورٹی کا نام لے اور کبھی بین الاقوامی سازش کا حصہ بتا کر خود پر لگ رہے ’کرونی کیپٹلزم‘ کے الزام کو رفع دفع کر اپنی کرسی بچانے کی کوشش کرے؟ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔