ووٹ ڈالنے سے پہلے، مودی کے 5 سالہ ’کارناموں‘ پر نظر ضرور ڈالیں

این ایس ایس او ڈاٹا کے مطابق ہندوستان میں پچھلے 45 سالوں میں بے روزگاری کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

لوک سبھا انتخابات کے تیسرے اور سب سے بڑے مرحلے کے تحت 23 اپریل کو ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ یعنی کہ موجودہ حکومت کی 5 سالہ میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہندوستانی عوام برسراقتدار پارٹی کے ان وعدوں اور دعوؤں کا جائزہ لیں جن پر ہم سے ووٹ مانگا گیا تھا اور ہم نے ان پر بھروسہ کرکے اپنا قیمتی ووٹ دیا تھا- کیا برسراقتدار پارٹی نے اپنے وعدوں کا چوتھائی وعدہ بھی پورا کیا یا نہیں؟ ان وعدوں کا بھی جائزہ لیں جن کی بنیاد پر یہ حکومت اقتدارمیں آئی تھی اور ملک کی اصل صورتحال کا پتہ لگاتے ہیں کہ اب کیا حالات ہیں؟ ان 5 سالہ دورحکومت پرغورکریں تومعلوم ہوگا کہ جوحکومت بدعنوانی اورکرپشن کو دور کرنے کی بات کر کے اقتدار میں آئی تھی آج وہی رافیل کے گھپلے میں ملوث ہونے کی ملزم مانی جا رہی ہے۔ اگر رافیل کے سودے بازی کی بات کی جائے تو ظاہر ہے کہ جس جہاز کی قیمت 2014 سے قبل 526 کروڑ روپئے تھی وہی جہاز 2016 میں تقریباً 1600 کروڑ میں حکومت خرید رہی ہے جوکہ صاف صاف بدعنوانی ہے۔

ویسے تونریندرمودی کی زیرقیادت حکومت کی کئی مثالیں موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمراں بی جے پی سے وابستہ رہنما اور اراکین بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں لیکن رافیل کا معاملہ سب سے بڑا معاملہ ہے جس میں 30 ہزار کروڑ روپئے کا گھپلا بتایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس معاملے کی جانچ کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا قیام عمل میں نہیں لائی۔ تاکہ اس سے اصل’کھیل‘ کا پتہ چل سکے۔ بہرحال اس معاملے کے کچھ نکات عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ہیں جس کا ہم انتظار کرسکتے ہیں۔ اس حکومت کا اگر دہشت گردی کے مسئلے پر تجزیہ کریں تومعلوم ہوگا کہ دہشت گردی کے واقعات میں جتنا اضافہ اس حکومت میں ہوا ہے اتنا آج تک کسی حکومت میں نہیں ہوا۔


یاد کیجیے 2014 کو جب ہرطرف ”ہرہرمودی گھر گھرمودی “کا نعرہ بلند تھا،عوام ایک تبدیلی کے خواہاں تھے اور بی جے پی اپنے آپ کو بہتر حکومت دینے کے لئے پیش کر رہی تھی۔ بی جے پی اورمودی کی تقریروں کے مطابق ہندوستان پوری دنیا میں ایک مثالی ملک بننے والا تھا۔ ہرطرف ایک جوش اور ولولہ کا ماحول بنا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے بچوں سے بوڑھوں تک کی زبان پر”مودی مودی“ کا لفظ رواں دواں تھا۔ عوام نے بھی آنکھ بند کرکے ان کے وعدوں پر اس امید کے ساتھ بھروسہ کرلیا کہ شاید ہندوستان بھی امریکہ، چین اورجاپان جیسے ممالک کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔ کیونکہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ”اچھے دن آنے والے ہیں“۔

اس ملک کے نوجوانوں کواس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں ہرسال دو کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔ غریب اور کسانوں کے حق کے لئے ان کے مفاد کی باتیں کی گئیں تھیں۔ فوج کے شہداء کے”ایک سر کے بدلے میں دشمن کے 10 سر“ لانے کی بات کہی گئی تھی۔ لہذا عوام نے اپنا قیمتی ووٹ بی جے پی کو دے کرمکمل اکثریت کے ساتھ ملک کی باگ ڈورسونپ دی۔ لیکن دیکھتے دیکھتے حکومت کے 5 سال بھی مکمل ہوگئے۔


وہ نوجوانوں جو ہرسال دوکروڑ نوکریوں کی آس میں تھا، اسے کیا ملا؟ پکوڑے تلنے کا روزگار، انہیں ملا ”میں بھی چوکیدار“انہیں ملا ”پاکستان مردہ باد کے نعرے“۔ اب ذرا غور کریں کہ ان چیزوں سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ کیا ان کی معیشت صحیح ہوئی؟ کیا مہنگائی کی شرح میں کمی آئی؟ کیا لوگوں کو واقعی روزگار ملا؟ نہیں! بالکل نہیں!

این ایس ایس او ڈاٹا کے مطابق ہندوستان میں پچھلے 45 سالوں میں بے روزگاری کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ وزیراعظم مودی اپنی اکثر تقریروں میں روزگار دینے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے کس روزگار کو اپنے ڈاٹا میں شمار کر رکھا ہے۔


14 فروری 2019 کوانڈیا ٹوڈے میں چھپی خبر کے حوالے سے سال 2014 اور2018 میں سرکاری ڈاٹا کے مطابق 176 فیصد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ہر مہینے جموں وکشمیر میں تقریباً11 فوجی مارے گئے ہیں۔ اس ڈاٹا سے سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح دہشت گردی کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ جس سے حکومت اس محاذ پر بھی ناکام ہوئی ہے۔ مگر پھر بھی ملک کے وزیراعظم اپنی تقریروں میں کہا کرتے ہیں کہ نوٹ بندی سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ اب ذرا ان واقعات کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں اور افواج کی شہادت کا جائزہ لیں تو واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پچھلے30 سالوں میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی شہادت ہوئی ہے۔

میڈیا کوجمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ یہ عوامی مفاد اورعوام کی آواز کو حکومت کے کانوں تک پہنچاتی ہے۔ سرکار کی عوام مخالف پالیسیوں کو منظرعام پر لاکراس کا تختہ پلٹ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب میڈیا نے اپنے وجود کا سودا نہ کیا ہو، اس نے ضمیر فروشی نہ کی ہو بلکہ آزاد اورغیرجانبدار بن کر عوام کی آواز بن گیا ہو۔ جب ہم 2014 کے بعد ہندوستانی میڈیا کے حال کا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے ضمیر کا سودا کر کے حکومت کی گود میں جا بیٹھا ہے۔ وہ میڈیا جوجمہوریت کے لئے چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے آج وہی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔


افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو در بدرکرنے کی بات کہی تھی کیونکہ وہ مخرب اخلاق کا باعث بنتے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی مثالی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے تو اس کو اپنی اس ریاست سے میڈیا کے وجود کوختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ جس طرح سے ہندوستانی میڈیا نے لوگوں کے اذہان و قلوب کو پراگندہ کیا ہے وہ ذکر سے پرے ہے۔ لکھنے کو تو بہت کچھ دل چاہتا ہے مگربھلا ہو ان ’راشٹربھکتوں‘ کی زہربجھی زبانوں کا کہ جب بھی کویٔی بولنے یا سوال کرنے کے لئے کھڑا ہوتا تو اسے غدار، پاکستان بھیجنے اوردہشت گرد جیسی دھمکیاں دے کرچپ کرا دیا جاتا ہے پھر بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ ’سب کاساتھ، سب کا وکاس‘۔ لیکن عوام کو چاہیے کہ وہ حکومت سے اپنے ووٹ کے ذریعہ ان وعدوں کا حساب لے جسے کر کے وہ اقتدار پر قابض ہوئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔