کنگنا سے ہمدردی رکھیں... اروند موہن

گزشتہ دس سال کے دوران کنگنا رانوت نے بی جے پی اور مودی حمایت میں جو کچھ کیا، اس سے ان کے کیریئر کو نقصان ہی نقصان ہوا ہے۔

پی ایم مودی سے مصافحہ کرتی کنگنا رانوت
پی ایم مودی سے مصافحہ کرتی کنگنا رانوت
user

اروند موہن

کنگنا رانوت سے اس قلم کار کو ہمدردی ہے۔ اس حد تک ہمدردی ہے کہ وہ اس کے منڈی سے انتخاب جیتنے کی خواہش کرتا ہے۔ عام طور سے اس کے آثار بھی ہیں۔ مودی جی اور بی جے پی ابھی دوسروں سے آگے نظر آتے ہیں اور منڈی سمیت ہماچل کی چاروں سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ سا رہا ہے۔ اور جب سوشل میڈیا اور باقی مقامات پر کنگنا پر کئی طرح کے حملے ہو رہے ہیں، تو بھی اس قلم کار کو برا لگتا ہے۔ لیکن اپنے بارے میں اتنا کہنے کے بعد یہ صفائی دینا بھی لازمی ہے کہ جب کنگنا رانوت کو بی جے پی نے ٹکٹ دیا اور کنگنا نے اسے قبول کیا تو اس قلم کار کو یہ سب سے برا لگا تھا۔ ایسا برا باصلاحیت اداکار انوپم کھیر کی بی جے پی حمایت پر بھی نہیں لگا تھا، کیونکہ ان کا کیریئر اور اداکاری دونوں ہی زوال پر تھے۔ کنگنا کے ساتھ ایسا نہیں تھا، لیکن گزشتہ دس سال کی بی جے پی اور مودی حمایت سے اسے کیریئر میں نقصان ہی نقصان ہوا ہے۔ اداکاری کا تو زیادہ کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ میں فلمیں عموماً نہیں دیکھتا اور کسی خاص اداکار اور اداکارہ کا دیوانہ بھی نہیں رہا ہوں۔

انتخابی نتائج سے پہلے کنگنا کے تئیں ہمدردی ان کو ٹکٹ ملنے پر ان کے فلمی کیریئر کی کچھ بھدّی تصویریں سوشل میڈیا پر لانے اور سپریا شرینیت و اپنی پرانی باس مرنال پانڈے سمیت چاروں طرف سے ان پر حملہ ہونے سے بھی تھی۔ یہ حملے ابھی جاری ہیں۔ لیکن کنگنا کوئی بے چاری نہیں ہیں، نہ اس کے سیاسی آقا وغیرہ کمزور ہیں۔ اس کا ایک طویل انٹرویو ایک بڑے چینل پر تقریباً اسی رفتار میں آگے بڑھا اور پیسہ کے ساتھ ساتھ نام و نمود حاصل کرنے والی صحافی نے کیا جن کی مودی اور حکومت سے خود کی محبت پوشیدہ نہیں ہے۔ کنگنا کے انٹرویو کا ایک نیوز ویلیو تو ہے، لیکن اتنے طویل انٹرویو کا مطلب عوامی رابطہ مہم چلانا بھی تھا۔ اور اپنی طرف سے اس خاتون اینکر نے کنگنا کے جوابوں کے اٹپٹاپن کو سنبھالنے کی بھی کوشش کی، لیکن صاف لگا کہ اپنے حوصلے اور اداکارانہ صلاحیت کے دم پر ممبئی کی مشکل فلم نگری میں اونچا مقام بنانے میں کامیاب رہی کنگنا اپنے خاص طریقے سے سیاست میں بھی کامیاب ہونے اور ایک مقام بنانے کی تیاری کے ساتھ آئی ہیں۔ ظاہری طور پر اس کی جو جھلک اس انٹرویو میں نظر آئی وہ کنگنا یا اس جیسی انتہائی خواہش مند لڑکیوں یا لڑکوں کی صاف حد کو بھی بتاتی ہے۔ اور اس حد کو نہ جاننے کے باوجود اس سیاست میں چھلانگ لگانے کے فیصلے سے زیادہ ہمدردی ہوتی ہے۔


کنگنا نے اپنی متوسط طبقہ والی فیملی کے کانگریسی اور اس میں بھی تھوڑے رائٹ وِنگ رجحان والی ہونے سے بات شروع کی تو اس کی سچائی جانچی جا سکتی ہے، اور تب کے کانگریس میں طرح طرح کے نظریات والے لوگ تھے بھی۔ لیکن جب اس نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کو ملک کا پہلا وزیر اعظم بتایا اور ان کی گمشدگی پر کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی تو اس مودی حامی اینکر نے سنبھالنے کی کوشش کی کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم تو نہرو تھے۔ اپنے طریقے سے پوری طرح تیار کنگنا اس رائے میں ترمیم کے موڈ میں نہیں تھی، اور وہ نیتاجی کی گمشدگی کے سوال کو نئی شکل دے کر موضوعِ بحث بننا اور اپنے سیاسی آقاؤں کی نظر میں خاص بننا چاہتی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جس آدمی نے اپنے خون سے ملک کو آزادی دلائی، اسے آزاد ہندوستان میں پیر نہیں رکھنے دیا گیا۔ دوسری طرف جو لوگ جیل میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ان کو حکومت سونپ دی گئی۔ لاکھ کوشش کے باوجود اینکر کنگنا کو دوسرے سبجیکٹ پر نہیں لے جا پائیں تو کہا کہ آپ کا سوال کیا ہے؟ کنگنا نے الٹا سوال پوچھا کہ نیتاجی گئے کہاں؟

اس سوال کو اس کامیاب اداکارہ نے سیاست میں اپنی نئی بنیاد بنانے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے تیار کیا تھا، لیکن اصل میں یہ اس کی محدود پڑھائی، کم علمی اور انتہائی خواہش مند ہونے کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ان حدود یا گھٹیاپن کا اس سے بھی زیادہ صاف ثبوت سردار پٹیل کو انگریزی نہ جاننے کے سبب وزیر اعظم کی ریس میں پچھڑنے والا بتانا تھا۔ شاید کنگنا کو معلوم نہ تھا کہ تب انگلینڈ سے بیرسٹری پاس ہونے کا کیا مطلب تھا اور احمد آباد کا سب سے کامیاب اور کماؤ کریمنل وکیل بنانا کیا مشکل تھا۔ راہل کے بارے میں کنگنا کی رائے تھی کہ وہ لیڈر نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے اندر وہ بات نہیں ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن کنگنا نے یہ بھی کہہ دیا کہ نیتاگری کوئی سافٹ ویئر سے ڈاؤن لوڈ ہونے کی چیز نہیں ہے جو اب ان کے دماغ میں بھر دی جائے۔ مودی کے بارے میں کنگنا کی رائے تھی کہ ان میں ’رام‘ کا عنصر ہے۔ وہ سورج کی طرح روشنی دیتے ہیں، جن کے آگے باقی سب لیڈران موم بتی نظر آتے ہیں۔


صاف لگتا ہے کہ کنگنا کا یہ انٹرویو اس چینل اور اینکر نے چاہے جس جائز یا ناجائز وجہ سے چلایا اور جتنی بھی تیاری کی ہو، کنگنا اپنی طرف سے پوری طرح تیار ہو کر آئی تھی۔ ان کی باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں تھا اور نہ کہیں ’علم‘ کی کمی نظر آ رہی تھی۔ خاتون اینکر نے اپنے علم سے اس میں ترمیم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام ہو گئی۔ کنگنا کی تیاری اپنے نئے کیریئر میں دھماکہ کرنے، نئی سرخی بننے، اپنے لیڈر کے سخت گیر مخالف کو تباہ کرنے اور اپنے لیڈر کو بھگوان کا عنصر والا بتا کر اس کی نظر میں خاص جگہ بنا لینے کی تھی۔ درحقیقت یہ اس کی بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تاریخ سے متعلق اس کے محدود علم سے زیادہ موجودہ سیاست کو نہ پہچان پانے، آج کی پارٹیوں، لیڈران، انتخاب کے کردار کو نہ سمجھ پانے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اسمرتی ایرانی ایک انٹرویو سے مودی کی نظر میں بھلے آ گئی ہوں، لیکن ان کی محنت، کامیابی اور بے عزتی برداشت کر پارٹی میں رہنے کی صلاحیت سبھی جانتے ہیں۔ آج مودی کے جتنے معاونین ہیں، یا راہل کے جتنے قریبی ہیں، یا اکھلیش اور تیجسوی کے جتنے مددگار ہیں وہ اس طرح کی باتیں کر کے، اتنی نچلی سطح کی تیاری سے نہیں آئے ہیں۔ اور سماجی و سیاسی کام اس طرح کے ہلکے پن والا ہے بھی نہیں۔ اسی لیے اس زبردست اداکارہ کے ذریعہ سیاست اور انتخاب کے سمندر میں ڈبکی لگانے پر ہمدردی کا جذبہ جاگ رہا ہے۔ وہ اس کا ’استعمال‘ اپنے لیے نہیں کر سکتیں، یہ سیاست اور انتخاب ان کو اور ان کے کیریئر کو ضرور نگل جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔