نفرت کی دکان پر’سپریم‘ تالا

تحقیقاتی ایجنسیوں کو اور اس کے ذمہ دار عہدیداروں کو اپنی پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے رہتے اور بستے ہیں۔ یہاں تہوار اور عبادتوں کے مسئلہ پر بھی لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں مفاد پرستوں نے ملک کی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے درمیان نفرت کی ایسی کھائی تیارکر دی ہے جس میں انسانیت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ اس نفرت اور زہرآلود ماحول میں بھی ملک کے دونوں بڑے طبقات میں اتحاد اور ہم آہنگی کے بے شمار علمبردار موجود ہیں جو فرقہ پرستوں کی نفرت انگیزی کو لگاتار چیلنج دے رہے ہیں، باوجود اس کے شرپسند عناصر جن کی تعداد بہت کم ہے وہ لگاتار ملک کے وقار اور بے مثال روایت کو مفاد پرستی کی آگ میں جھونکنے پر تلے ہوئے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ اشتعال انگیز بیانات اور خوفناک دھمکیوں کے سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود تحقیقاتی ایجنسیاں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اپنی کارروائیوں کو محض حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے تک محدود کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مٹھی بھر لوگ ملک کے قانون اور دستور کو اپنی جاگیر سمجھ کر کسی کے خلاف کچھ بھی بول رہے ہیں اور پورا انتظامی نظام بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ شرپسندوں کے ساتھ جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے میڈیا کے ایک طبقہ کی جانب سے بھی لگاتار نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے والے مباحث پیش کئے جا رہے ہیں۔


اظہار خیال کی آزادی اور آزادی صحافت کی آڑ میں نفرت پھیلانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے زیادہ تر ٹی وی چینلوں نے پورے میڈیا کو ’بکاؤ‘ کی لائن میں کھڑا کر دیا ہے۔ آخر یہ لوگ ملک کو کس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے کیونکہ اگر یہ لوگ حکمراں طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں تواس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اقتدار کسی کی مستقل جاگیر نہیں ہوتی ہے، حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ اگر کچھ باقی رہتا ہے تو وہ ملک کے شہری ہیں جوکبھی بھی کسی کو بھی اقتدار سونپ سکتے ہیں۔ ملک کا شہری آج اپنے کو لاوارث سمجھنے لگا تھا لیکن عین وقت پر اس بار بھی سپریم کورٹ نے اپنے وجود کا ثبوت دیا ہے۔

ملک کی عدالت عظمیٰ نے جمعہ کے روز ’مسلمانوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے اور دہشت گرد کہنے‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کے مسئلے پر اپنے اب تک کے سب سے شدید ریمارکس کئے اور کہا کہ نفرت انگیز تقاریر ایک بہت سنگین مسئلہ ہے، متعلقہ حکام اس طرح کے واقعات پر کسی شکایت کے بغیر از خود کارروائی کریں بصورت دیگر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ یعنی جو کوئی اس طرح کے معاملات میں کارروائی نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اکیسویں صدی ہے، اس کے باوجود اس طرح کی صورتحال افسوسناک ہے۔


عدالت نے حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک جمہوری ملک کے لیے یہ وقت انتہائی حیران کرنے والا ہے۔ ہم نے ایسے حالات پہلے نہیں دیکھے۔ ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح کی اشتعال انگیز تقاریر پریشان کرنے والی ہیں، خصوصاً ایسے ملک کے لیے جو ایک جمہوری اور کئی مذاہب والا ہے۔ ملک کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے کے لیے فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے ۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے میڈیا چینلوں کو خود ہی ذمہ داری دے رکھی تھی کہ وہ نفرت انگیز مسائل پر مباحث کروائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان چینلوں کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی گئی۔

 مذہبی اعتبار سے غیرجانبدار ملک کے دستور کے مطابق ہندوستان سیکولر ملک ہے اور ملک کے شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کریں۔ ملک کے اتحاد و یکجہتی کو دستور ہند کے پیش لفظ میں رہنماء اصول کے طور پر پیش کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ذمہ دار اور فکرمند شہریوں کو اس انتہائی سنگین اور اہمیت کے حامل مسئلے پر عدالت کا سہارا لینا پڑا کیونکہ متعلقہ حکام کی جانب سے انتہائی لاپرواہی برتی جا رہی تھی۔ سنگین ترین خلاف ورزیوں اور ملک کے عوام کو دوسرے طبقات کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کے قتل عام کے لیے اکسانے جیسے واقعات پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اشتعال انگیزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔


اب جبکہ عدالت عظمیٰ نے انتہائی شدید ریمارکس کے ذریعہ نفرت کی دکان پر’سپریم‘ تالا جڑ دیا ہے، تو متعلقہ حکام کو اپنے فرائض منصبی کی تکمیل سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور جو کوئی ملک کے امن وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کرے اس کے خلاف قانون کے مطابق سرعت کے ساتھ کارروائی کی جائے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو اور اس کے ذمہ دار عہدیداروں کو اپنی پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی تحقیقاتی ایجنسیوں کے تعلق سے پیدا ہوئے شبہات دور ہوسکتے ہیں اور وطن عزیز کی مثالی حیثیت بحال ہوسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔