مخالفین کو دبانا جمہوری اقدار کے منافی!

مرکزی حکومت طاقت کے زعم میں کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے، ہر گوشے کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔

پارلیمنٹ، تصویر یو این آئی
پارلیمنٹ، تصویر یو این آئی
user

نواب علی اختر

ہندوستان کی جمہوری روایات میں اختلاف رائے کا احترام سب سے اہم رہا ہے۔ مخالفین کی آواز سننا، ان کے مسائل اور مخالفت کے اسباب کو سنجیدگی سے لینا حکمرانوں کا فریضہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کی مثال دی جاتی ہے، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے ہمارے حکمرانوں نے اپوزیشن کے خلاف جس طرح کی روش اختیار کی ہے اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ ہندوستان کو ایک جماعتی نظام کی طرف دھکیل کر منمانی کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو ملک کی جمہوریت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ مرکزی حکومت طاقت کے زعم میں کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے، ہر گوشے کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہے اور صاف طور پر یہ تمام کوششیں جمہوری روایات اور اقدار کے مغائر کہی جاسکتی ہیں۔

جمہوریت کے مندر پارلیمنٹ سے جس طرح اپوزیشن اراکین کو معطل کیا جا رہا ہے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے والے رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کی آواز برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی تمام مخالفانہ آوازوں کو دبانا چاہتی ہے۔ چاہے وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہو، سماجی کارکنوں کی جانب سے ہو، طلباء کی جانب سے ہو یا پھر صحافیوں کی جانب سے ہو۔ مجموعی طور پر حکومت ہر شعبے کی زبان بندی میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔ یہ نظارہ پارلیمنٹ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جہاں مانسون اجلاس کے دوران دونوں ایوانوں میں قیام امن کی حکمراں فریق کی خواہش انتہائی سخت کارروائیوں کے طور پر سامنے آرہی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ آئین کے رکھوالے بھی اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔


پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس شروع ہوئے 10 روز ہوچکے ہیں اس دوران حکومت نے بغیر اپوزیشن کی رائے معلوم کئے تن تنہا کچھ بل ضرور پاس کئے ہیں مگر عوامی مفاد کے کسی معاملے پر سنجیدگی سے بحث یا تبادلہ خیال نہیں کیا گیا ہے جب کہ اجلاس کے پہلے روز سے اپوزیشن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، افراط زر، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ جیسے اہم مسائل پر ایوان میں تبادلہ خیال کرنے پر مصر ہے کیونکہ ان بنیادی ضروریات کی وجہ سے ملک کے عوام پر مسلسل اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ عوام کو ہر ضروری شئے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے جس سے ملک کے ہر شہری کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اگرعوامی مسائل سے حکومت کی بے توجہی اسی طرح رہی تو ملک میں انقلاب برپا ہونا خارج ازامکان نہیں کہا جاسکتا ہے۔

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اب تک راجیہ سبھا کے 20 ارکان پورے ہفتے کے لیے اور لوک سبھا کے 4 ارکان پورے اجلاس کے لیے معطل کر دیئے گئے ہیں۔ ان اراکین کا قصور محض یہ تھا کہ وہ مہنگائی اورجی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ کے معاملے پر فوری بحث کی مانگ کر رہے تھے۔ یہ ارکان ایوان میں عوامی مسائل پر مباحث کروانا چاہتے تھے، اپنی بات رکھنا چاہتے تھے، حکومت سے سوال کرتے ہوئے جواب طلب کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ حکمراں فریق کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ارکان کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ حکومت کی روش سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنے طریقے سے حکومتی کام کاج کو آگے بڑھانا چاہتی ہے اسی وجہ سے اپوزیشن کی رائے اور اعتراضات کو قبول کرنے یا کم از کم ان کا جائزہ لینے تک کے لیے حکومت تیار نظر نہیں آتی۔


اپوزیشن کے ساتھ حکومت کے اس طرح کے رویئے کو کسی بھی طرح سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مانسون اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کا ہنگامہ کرنا، نعرے لگانا یا ویل میں جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بے شک اس وجہ سے کئی بارایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑتی ہے لیکن کسی جمہوری نظام میں اسے اپوزیشن کا جمہوری حق مانا جاتا ہے۔ اپوزیشن کسی مسئلے پر ایوان کی کارروائی روک کر یا پارلیمنٹ میں کام کاج ٹھپ کرکے بھی سیاسی پیغام دیتا ہے۔ حکمراں فریق ضرور کوشش کرتا ہے کہ ایسی نوبت نہ آئے اور پارلیمنٹ کا کام کاج بہتر طور سے چلے، یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے لیکن اس کے لیے وہ اپوزیشن جماعتوں اور سینئر رہنماؤں سے بات چیت کرکے ان کے ساتھ تال میل بنانے اور انہیں اعتماد میں لینے کا طریقے اپناتا ہے۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کلاس روم جیسے ڈسپلن کی نہ توضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہر رکن اپنے علاقے کے عوام کی آواز ہوتا ہے۔ وہ عوام کے مفاد کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے جو حکومت کی خواہش اور اس کی مقررکردہ شرائط کے مطابق چلنے سے پوری نہیں ہوتی۔ خواہ حکمراں فریق کے پاس اعدادی قوت ہو، اپوزیشن کی آواز کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اس کی بھی ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری سے فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے لیے نیک شگون نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں یہ نوعیت کمزور پڑنے کی بجائے مضبوط ہو رہی ہے۔ گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن کے 12 ارکان معطل کئے گئے تھے، اس بار راجیہ سبھا کے 19 ارکان ایک ساتھ معطل کر دیئے گئے جواب تک کا ریکارڈ ہے۔


حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تنقیدیں اگر تعمیری نوعیت کی ہیں تو ان کو قبول کرنا چاہئے کیونکہ عوام کو راحت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو عوامی مسائل پر بیدار کرنا اپوزیشن کا فریضہ ہے۔ جب تک دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے اس وقت تک عوام کو مسائل سے نجات نہیں ملے گی۔ ایوان میں نظم برقرار رکھنا اور کارروائی چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اپوزیشن کی آواز کو دبا کر پوری نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے فیصلوں سے حکمراں فریق اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ایوان کے اندر کام کاج کے لائق ماحول پیدا کرنا اور مشکل ہوجاتا ہے۔ حکمراں فریق کو چاہئے کہ اپوزیشن کی شکایات دور کرکے انہیں سامنے بٹھائے اور سمجھوتے کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے۔ بصورت دیگرعوام اپنے رہنماؤں سے مایوس ہو جائیں گے اور اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔