ایس آر بمقابلہ ایس آئی آر: آسام میں بدلتے فیصلوں نے شبہات پیدا کر دیے!... سوربھ سین

ایس آر کئی معنوں میں ’ایس آئی آر‘ سے مختلف ہے۔ آسام میں ایس آر کے تحت شہریت کے مسئلے کو چھیڑے بغیر موجودہ ووٹر لسٹ کی فزیکل تصدیق اور تازہ کاری (اپڈیشن) کی جائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>ووٹر لسٹ / علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

سوربھ سین

آسام میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) نہ کیے جانے کا فیصلہ ہونے کے چند ہی روز بعد الیکشن کمیشن نے اچانک یو-ٹرن لیتے ہوئے ’اسپیشل ریویژن‘ یعنی خصوصی نظرثانی (ایس آر) کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سوال اٹھنے لگے کہ اس اعلان کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا ابھی تک کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔ نتیجہ کار آسام میں اس عمل سے متعلق عدم اعتماد میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ابتدا میں وضاحت کی تھی کہ آسام، جہاں 2026 میں اسمبلی انتخاب ہونے والا ہے، کو اس لیے الگ رکھا گیا ہے کیونکہ 2013 سے جاری نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ یہ عمل اس لیے مکمل نہیں ہو پایا کیونکہ 2019 میں بی جے پی نے اس عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو مسلمانوں کے مقابلے زیادہ ہندوؤں کو ’مشکوک رائے دہندہ‘ کے طور پر ظاہر کر رہا تھا۔

پھر آخر کیا وجہ تھی جس نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا؟ بہار یا مغربی بنگال کے برعکس آسام میں یہ اسپیشل ریویژن ایک مخصوص طریقۂ کار پر مبنی ہوگی، جس کے تحت آسام میں ووٹروں کو کوئی دستاویز جمع کرانے یا یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ ان کے والدین یا رشتہ دار پہلے ووٹر لسٹ میں درج تھے۔ ’آسام جاتیہ پریشد‘ (اے جے پی) کے صدر لورنجیوتی گوگوئی نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو بتایا کہ ’’یہ ایس آر ایک خطرناک سازش ہے، جس کا مقصد وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی قیادت والی آسام کی موجودہ حکومت کے مفادات کا تحفظ ہے… آسام میں شہریت کے مسئلے پر جدوجہد کی ایک تاریخ رہی ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ ایس آر کا عمل صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب این آر سی کا عمل مکمل ہو جائے‘‘۔

جہاں تک ایس آر کا سوال ہے، یہ ’ایس آئی آر‘ سے بہت مختلف ہے۔ آسام میں ایس آر کے تحت شہریت کے مسئلے کو چھیڑے بغیر موجودہ ووٹر لسٹ کی فزیکل تصدیق اور تازہ کاری (اپڈیشن) کی جائے گی۔ بوتھ لیول افسران (بی ایل او) ہر گھر کا دورہ کریں گے اور پہلے سے پُر شدہ فارم استعمال کریں گے جن میں موجودہ رائے دہندگان کی تفصیلات ہوں گی۔ ظاہر ہے یہ ایس آئی آر کے برعکس ہے، کیونکہ ایس آئی آر میں نئے اور خالی فارم تقسیم کیے جاتے ہیں۔ آسام میں یہ مشق موجودہ ووٹر لسٹ کی تصدیق اور اصلاح پر مرکوز ہوگی۔ اس میں یکم جنوری 2026 کو اہل ہونے کی تاریخ کے طور پر استعمال کیا جائے گا، یعنی جو بھی شہری اس تاریخ تک 18 سال کا ہو جائے گا، وہ اندراج کا اہل ہوگا۔ یہ عمل 4 نکات پر مرکوز ہوگی– نئے اہل شہریوں کو شامل کرنا، انتقال کر جانے والے رائے دہندگان کے نام حذف کرنا، مستقل طور پر منتقل ہونے والے ووٹروں کے نام نکالنا اور موجودہ اندراجات میں غلطیوں کی اصلاح کرنا۔

گوگوئی چیف الیکٹرول افسر انوراگ گوئل کے ایک متنازع بیان کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، جو میڈیا بریفنگ کے دوران سامنے آیا ہے۔ سی ای او کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آسام میں رائے دہندگان پولنگ سے صرف 2 دن پہلے تک اپنے نام درج کروا سکیں گے۔ بہار میں نافذ قواعد کے مطابق رائے دہندگان کو نامزدگی کی آخری تاریخ سے 10 دن پہلے تک اندراج کی اجازت تھی، جس نے بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا تھا۔ پھر پہلے اور دوسرے مرحلے کی پولنگ کے درمیان 3 لاکھ سے زیادہ ووٹرس کے اضافے کا بھی مسئلہ اٹھا۔ پولنگ سے صرف 48 گھنٹے پہلے ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنا آخر ممکن کیسے ہوگا؟ کیا یہ صرف زبان کی پھسلن تھی یا معاملہ اس سے بڑھ کر ہے؟

الیکشن کمیشن کے اس بیان نے کہ ’ڈی‘ ووٹرس (مشکوک ووٹرس) بھی ووٹر لسٹ میں شامل ہوں گے، آسام میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کر رہا ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) ریاست میں رہنے والے لوگوں کا ایک ایسا اندراج تھا، جس کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن سے حقیقی ہندوستانی شہریوں کی شناخت کرنا تھا۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں 2013 میں شروع ہونے والی یہ مشق 6 سال بعد 2019 میں مکمل ہوئی اور اس میں درخواست دہندگان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ 24 مارچ 1971، یعنی آخری تاریخ سے پہلے آسام میں موجود تھے۔

اگرچہ یہ ہندوستانی شہریوں کی فہرست ہے، لیکن اس میں تقریباً 19 لاکھ افراد شامل نہیں کیے گئے، جن کی شہریت کی حیثیت آج تک غیر واضح ہے۔ تقریباً 10 ہزار معاملات غیر ملکی ٹربیونلز میں زیر التوا بھی ہیں۔ ویسے این آر سی کا غیر اعلانیہ ہدف پڑوسی بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی مسلمان مہاجرین کی نشاندہی کرنا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر 19 لاکھ مشتبہ غیر ملکیوں میں مسلمانوں سے زیادہ بنگالی ہندو شامل تھے۔

ایسا نتیجہ 2016 میں آسام میں برسر اقتدار ہونے والی بی جے پی کے لیے ناقابل قبول تھا، جو ایک جارحانہ ہندوتوا ایجنڈا لے کر آئی تھی اور سابقہ کانگریس حکومتوں پر غیر ملکیوں کے مسئلے پر نرم رویہ اپنانے کا الزام لگاتی رہی۔ گوگوئی کا کہنا ہے کہ ایس آر اور این آر سی کے اعداد و شمار کو یکجا کرنا ناممکن ہوگا، جب تک کہ یہ تنازعات حل نہ ہو جائیں۔

مشکوک رائے دہندگان یا ’ڈی ووٹرس‘ کے مسئلے پر (جو بنگلہ دیش سے آنے والے مبینہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جو فہرستوں میں تو موجود ہیں مگر ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں) الیکشن کمیشن کا موقف یہ ہے کہ ان کی تفصیلات بغیر کسی تبدیلی کے ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں شامل کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’کسی بھی ترمیم، بشمول ہٹانے یا حذف کرنے، کا اطلاق صرف اس وقت ہوگا جب متعلقہ غیر ملکی ٹریبونل یا کسی مناسب عدالت کا حکم موصول ہو۔‘‘ فی الحال ’ڈی ووٹرس‘ ایس آر کے دائرے میں نہیں آئیں گے، اور ریاست میں اس وقت ایسے 94,277 نام موجود ہیں۔

ٹیتابور سے کانگریس رکن اسمبلی بھاسکر جیوتی بروا کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں آسام میں پورے ایس آر عمل پر شک ہے۔‘‘ نئے اہل ووٹرس کے اندراج کے مقررہ عمل، جس میں ان کی شہریت کی تصدیق شامل ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے بروا نے کہا کہ انتخاب سے عین قبل ناموں کے اندراج کی سہولت بی جے پی کے حق میں ترازو جھکا سکتی ہے۔ راجین گوہین، جو کہ حال ہی میں بی جے پی چھوڑ کر اے جے پی میں شامل ہوئے ہیں، بروا کے دعووں سے اتفاق رکھتے ہیں۔

آسام پردیش کانگریس کمیٹی کے سربراہ گورو گوگوئی نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما آسام کی ووٹر لسٹ میں اتر پردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں دھبری میں منعقد ایک تقریب کے دوران اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے گورو گوگوئی نے کہا تھا کہ ’’آسام کے لوگ سرما کو پسند نہیں کرتے اور وہ بی جے پی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ دوسری ریاستوں کے لوگوں کا نام ووٹر لسٹ میں شامل کروانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

آسام کی اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے ظاہر کی گئی تشویش میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ گوہاٹی کے ایک سینئر سبکدوش بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ ’’ایس آر کا عمل ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے۔ جن لوگوں کو بے دخل کیا گیا ہے، وہ بھی فارم 8 استعمال کرتے ہوئے ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس فارم کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔‘‘

سابق راجیہ سبھا رکن اور مغربی بنگال کے سابق اسٹیٹ الیکشن کمشنر جواہر سرکار نشاندہی کرتے ہیں کہ 2021 سے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے سرکاری یا جنگلاتی زمین کو ’مافیاؤں‘ سے آزاد کرانے کی ایک جارحانہ مہم شروع کی، اور ریکارڈ ثابت کریں گے کہ تقریباً تمام بے رحمانہ بے دخلیاں بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کے خلاف کی گئیں۔ اس سے بے گھر لوگوں کے لیے اپنا اندراج کرانا مزید مشکل ہو جائے گا اور اس حکمت عملی کا مقصد صرف انہیں ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنا نہیں بلکہ ’خالی‘ کی گئی زمین کو دوست صنعت کاروں کے حوالے کرنا بھی ہے۔ یہ شبہ ایک پیپلز ٹریبونل نےظاہر کیا، جس نے اگست 2025 کے اوائل میں دیما ہساؤ اور کامروپ اضلاع کا دورہ کیا تھا۔

(مضمون نگار سوربھ سین ایک آزاد مصنف ہیں اور سیاسی، انسانی حقوق اور خارجہ امور کے مبصر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔