آخر مدرسوں پر یہ آفت کیوں؟

Getty Images
Getty Images
user

شمس الاسلام

ان دنوں اتر پردیش میں یوگی حکومت کی نگاہ مدرسوں پر ہے۔ مدرسوں کے تعلق سے پہلے یوگی حکومت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ یوم آزادی کے موقع پر سرکاری امداد شدہ مدارس میں قومی گیت کی ویڈیوگرافی کروا کر حکومت کو بطور ثبوت پیش کی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم تھا کہ اگر ایسا نہیں ہواتو مدرسوں کو سرکار سے ملنے والی امداد بند کر دی جائے گی۔ جب حکومت سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آخر محض مدرسوں پر ہی کیوں یہ حکم نافذ کیا جا رہا ہے تو یو پی افسران کا ٹکا سا جواب تھا ’’ہم کو اپنے اسکولوں پر بھروسہ ہے، وہاں ہمارے اساتذہ ہیں اور ہمارے بچے ہیں۔ ہم ان سے کیوں ثبوت مانگیں‘‘۔ اس جواب سے ظاہر ہے کہ مسلم اقلیت کو دوسرے درجے کے شہری کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس رویہ سے مسلم اقلیت کے خلاف نفرت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اصولاً جس افسر نے یہ بیان دیا تھا اس کے خلاف پولس ایف آئی آر ہونی چاہیے تھی اور اس کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ یو پی کی مسلم تنظیمیں بھی اس سلسلے میں گہری نیند سوتی رہیں اور کہیں کوئی چوں بھی نہیں ہوئی۔پھر چند روز قبل یوگی سرکار کا یہ حکم آیا کہ تمام مدارس کی جیو میپنگ ہوگی۔

مدرسوں کا جنگ آزادی میں تابناک رول

دراصل مدارس جن کو آج نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کا جنگ آزدای میں تابناک رول رہا ہے۔ مشہور و معروف مورخ آر ایس مجمدار نے کافی تحقیق کے بعد یہ رقم کیا ہے کہ کالے پانی کی سزا سب سے پہلے 1857 کی غدر کے بعد جن کو ہوئی وہ علماء کرام ہی تھے۔ ان میں مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا لیاقت علی اور مولانا جعفر علی تھانیشوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ علماء تھے جن کی موت بھی وہیں قید میں ہوئی۔ وہاں جو دوسرا قیدیوں کا جتھا قید کیا گیا وہ بھی وہابی علماء کا انقلابی گروہ تھا جس نے 1857 کی غدر ناکام ہونے کے بعد بھی آزادی کا پرچم بلند رکھا تھا۔ مشہور مورخ جادو ناتھ سرکار نے غدر پر اپنے معرکۃ الآرا مضمون ’دی انڈین وار آف انڈیپنڈینس 1857‘ میں مولوی احمد شاہ جیسے علماء کی زبردست تعریف کی ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے ’’بڑی خوبصورتی اور چالاکی سے جہاد کا جال انگریزوں کے خلاف رچا تھا‘‘۔

برٹش ملٹری آرکائیوز کے مطابق ستمبر 1857 میں دہلی پر قبضے کے بعد انگریزوں نے محض دہلی میں تین ہزار مدارس کے معلم اور اساتذہ کو پھانسی دی تھی۔ حد یہ ہے کہ 1859 تک دہلی میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع قرار رہا۔

پھر جنگ آزادی کے دوران مولانا شبلی نعمانی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، مولانا حفظ الرحمان، مولانا حسرت موہانی، حافظ ابراہیم، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی اور مولانا مدنی جیسے مدارس کے علماء نے گاندھی جی، نہرو اور پٹیل جیسے لیڈروں کے ساتھ شانہ بہ شانہ جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ ان میں سے کچھ علماء کو مالٹا کی جیل میں قید کیا گیا اور ان کی آدھی زندگی جیل میں ہی کٹی۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ ان علماء نے مذہب کی بنیاد پر ملک کا بٹوارہ تسلیم نہیں کیا تھا جب کہ کانگریس نے اس کو منظور کر لیا۔

آج مدارس کی انہی روایت کو برقرار رکھنے والے مدارس اور معلموں کو یوگی سرکار طعنوں کا نشانہ بنارہی ہے۔ اب ان کو قومیت کا سبق سکھایا جا رہا ہے۔ آئیے ذرا مدارس کے کردار کے مقابل ذرا آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کا جنگ آزادی کے تئیں کیا رول رہا ہے اس پر بھی ایک نگاہ ڈالیں۔

ترنگے کے تئیں آر ایس ایس کی نفرت

سنہ 1925 میں اپنی سنگ بنیاد کے وقت سے ہی آر ایس ایس کو ہر اس بات سے نفرت رہی ہے جو اس ملک کی انگریزوں کے خلاف متحدہ جدوجہد کی علامت رہی ہے۔ اس سلسلے میں ترنگے کی مثال قابل غور ہے۔ دسمبر 1929 کو کانگریس نے اپنے لاہور اجلاس میں ’پورن سوراج‘ یعنی مکمل آزادی کا نعرہ بلند کیا اور تمام ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ 26 جنوری 1930 کے روز پرچم لہرا کر اس کا احترام کریں۔ اس کے برخلاف اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ 26 جنوری 1930 کے روز تمام شاخیں بھگوا لہرا کر قومی روز منائیں۔

گولوالکر،( آر ایس ایس گرو اور آج کے بہت سارے لیڈران کے بھی گرو) نے 14 جولائی 1946 کو ناگپور میں گرو پورنیما کے موقع پر ایک تقریر کے دوران بھگوا جھنڈے کے بارے میں یہ اعلان کیا کہ ’’یہ جھنڈا ہمارے لیے بھگوان کا رتبہ رکھتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آخر میں پوری قوم اسی جھنڈے کے آگے سر جھکائے گی‘‘۔

جنگ آزادی کے بعد بھی آر ایس ایس نے قومی جھنڈے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ گولوالکر نے اس سلسلے میں اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹ‘ میں جو خیال پیش کیے ہیں وہ قابل توجہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے لیڈروں نے ملک کے لیے ایک نیا جھنڈا بنا دیا ہے۔ آخر یہ کیوں کیا گیا ہے؟ یہ ایک قدیمی اور عظیم ملک ہے۔ کیا پہلے ہمارا کوئی جھنڈا نہیں تھا؟ کیا ہزاروں سال سے ہمارا کوئی قومی نشان نہیں تھا؟ تھا اور بلکہ آج بھی ہے۔ پھر ہمارے ذہن میں یہ خلاء اور یہ اختراع کیوں۔‘‘

آر ایس ایس نے عین آزادی کے موقع پر بھی قومی ترنگے کی بے حرمتی کی۔ سنگھ کے انگریزی اخبار ’آرگنائزر‘ نے 14 اگست 1947 کو اپنے شمارے میں قومی ترنگے کے سلسلے میں لکھا:’’ وہ لوگ جو قسمت سے برسراقتدار آئے ہیں انھوں نے بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگا تھما دیا ہے لیکن ہندو نہ تو کبھی اس کا احترام کریں گے اور نہ ہی اس کو تسلیم کریں گے۔ لفظ ترنگا اپنے میں ہی ایک منحوس لفظ ہے اور تین رنگوں پر مبنی جھنڈا ملک اور قوم کی بے حرمتی ہے۔‘‘

سنگھ اور مہاسبھا نے جنگ آزادی میں دھوکہ دیا

سنگھ اور بی جے پی اب اتر پردیش میں مدرسوں پر پرچم لہرانے کا حکم دے کر خود اپنے ماضی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل سنگھ نے جنگ آزادی میں حصہ ہی نہیں لیا اور اس سلسلے میں سنگھ کے سربراہ گرو گولوالکر نے خود اقبال کیا ہے۔ تحریک عدم تعاون اور ہندوستان چھوڑو تحریک ہماری جنگ آزادی کے دو سنگ میل ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ گرو گولوالکر اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں:’’ سنہ 1942 (ہندوستان چھوڑو) میں ملک میں لوگوں کے دلوں میں قومی جذبہ جوش مار رہا تھا لیکن اس وقت بھی سنگھ خاموش رہا‘‘۔

دوسری طرف ساورکر کی قیادت میں ہندو مہاسبھا بنگال، سندھ اور سرحد میں مسلم لیگ کے ساتھ مل کر صوبائی سرکار چلا رہی تھی جب کہ کانگریس کو ملک چھوڑو تحریک کے سبب حکومت میں شرکت کا حکم نہیں تھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ شیاما پرساد مکھرجی بنگال میں مسلم لیگ حکومت میں وزیر بھی تھے۔ مکھرجی سنگھ کے چہیتوں میں سے ہیں۔

اسی نظریہ کے سبب گولوالکر، دین دیال اپادھیائے اور لال کرشن اڈوانی جیسے سنگھ کے سنتوں نے جنگ آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوتوا نظریہ کے بانی ساورکر نے سیلولر جیل سے انگریزوں کے نام چار پانچ معافی نامے کے خطوط بھی لکھے۔ آخر وہ دس سال بعد رہا کر دیے گئے جب کہ ان کو 50 سال کی سزا ہوئی تھی۔

مسلم وطن پرستی پر سوالیہ نشان لگانے والے سنگھ-بی جے پی حاکموں کے مدارس کے متعلق حکم نامے سے یو پی کے مسلمانوں میں سخت مایوسی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کو یہ خوف ہے کہ جیسے گائے کے معاملے میں ان کو نشانہ بنایا گیا ویسے ہی اس معاملے میں بھی ان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس سے افسوسناک بات یہ ہے کہ نام نہاد مسلم تنظیموں نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مدارس کو چاہیے تھا کہ اس موقع پر وہ لوگوں کو جنگ آزادی میں سنگھ کے رول سے آگاہ کرتے۔ کم از کم اگلی 15 اگست کو مدارس کو یہ کام کرنا چاہیے اور اگلی 15 اگست کو کوئی طویل مدت تو باقی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 31 Aug 2017, 4:16 PM