حکومت کی سرپرستی میں جنسی تشدد

مظفر پور اور دیوریا کے واقعات بتاتے ہیں کہ شیلٹر ہوم چلانے والوں کو اعلیٰ سطح پر سرکاری سرپرستی حاصل تھی اور بہار و اتر پردیش کی ریاستی حکومتوں کی پوری جانکاری میں ایسے بھیانک کام ہو رہے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اجے سنگھ

ملک کی عدالت عظمیٰ نے 7 اگست 2018 کو جو سخت تبصرہ کیا، اس پر توجہ دیجیے۔ سرکاری پیسے سے چلنے والے مظفر پور (بہار) کے گرلز شیلٹر ہوم میں بچیوں پر جنسی تشدد (جس میں عصمت دری اور جبراً قحبہ گری شامل ہے) کے معاملے میں از خود سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ عصمت دری بہار حکومت کے ذریعہ اسپانسرڈ ہیں اور ایسے بھیانک کام کے لیے حکومت پیسہ دے رہی ہے۔

ملک میں خواتین پر جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات پر گہری فکر ظاہر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہاں وہاں ہر جگہ بچیوں و خواتین کے ساتھ عصمت دری ہو رہی ہے۔ قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ سال 2016 میں عصمت دری کے 38947 معاملے درج ہوئے اور اس کا مطلب ہے کہ ہر گھنٹے 4 عورتوں کے ساتھ عصمت دری ہوتی ہے۔

پہلے مظفر پور (بہار) اور اب دیوریا (اتر پردیش) میں ریاستی حکومتوں کے ذریعہ امداد یافتہ گرلز شیلٹر ہوم میں رہنے والی یتیم، بے سہارا اور سڑک پر چھوڑ دی گئی بچیوں کے ساتھ، جن کی عمر چھ سال سے لے کر اٹھارہ سال کے درمیان ہے، جنسی تشدد کی ہولناک کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ انھیں اونچے سطح پر سرکاری سرپرستی ملی ہوئی تھی اور بہار و اتر پردیش کی ریاستی حکومتوں کی پوری جانکاری میں ایسے بھیانک کام ہو رہے تھے۔ برسراقتدار پارٹی کے تحفظ و مدد کے بغیر ایسے جنسی تشدد طویل مدت تک نہیں چل سکتے۔ سپریم کورٹ کے تبصرہ، جسے کا اس مضمون کے شروع میں ہی تذکرہ کیا گیا ہے، اسی ضمن میں ہے۔ بہار و اتر پردیش میں بی جے پی اتحاد یا بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

اتر پردیش کے دیوریا میں ’ماں وندھواسنی مہیلا ایوم بالیکا سنرکشن گرہ‘ کے نام سے چلنے والے شیلٹر ہوم کا لائسنس ریاستی حکومت نے جون 2017 میں رد کر دیا تھا۔ پھر بھی یہ کھلے عام چلتا رہا اور اس کے پروگرام میں ضلع کے اعلیٰ سرکاری افسر اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے وزیر شامل ہوتے رہے۔ لائسنس رَد ہونے کے باوجود پولس بچیوں و عورتوں کو اس شیلٹر ہوم میں بھیجتی رہی اور ضلع انتظامیہ و ریاستی حکومت کو اس بات کی جانکاری تھی۔

’اکھل بھارتیہ جن وادی مہیلا سمیتی‘ (ایڈوا) کی اتر پردیش ریاستی یونٹ کی سربراہ مدھو گرگ کا کہنا ہے کہ اس شیلٹر ہوم کی جانچ و سوشل آڈٹ کرانے سے متعلق بات کرنے کے لیے ہم نے خاتون و اطفال فلاح کی وزیر ریتا بہوگنا جوشی سے ملنے کا وقت طلب کیا تھا لیکن انھوں نے وقت نہیں دیا۔

بہار میں مظفر پور میں شیلٹڑ ہوم چلانے والا جو این جی او (غیر سرکاری ادارہ) ان دنوں کٹہرے میں ہے، اس کا سرغنہ برجیش ٹھاکر ریاست کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا بہت قریبی رہا ہے۔ اسے ہر سطح پر سرکاری تحفظ اور معاشی مدد ملتی رہی ہے۔ یہ شیلٹر ہوم پوری طرح سرکاری پیسے سے چلتا تھا۔ اس میں بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی خبریں باہر آنے کے بعد بھی شیلٹر ہوم اور اس کے سرغنہ کو بچانے کے لیے نتیش حکومت آخر آخر تک لگی رہی۔

ہندوستان میں حکومت کی سرپرستی میں خواتین پر جنسی تشدد جگہ جگہ ہو رہا ہے۔ کشمیر، چھتیس گڑھ، منی پور، بہار، اتر پردیش، ہریانہ، تمل ناڈو، دہلی... ایسے میں لندن واقع تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کا (جو اس سال جون میں جاری کیا گیا) یاد آنا فطری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے لیے ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ملک ہے۔

ہم لوگوں میں سے کچھ لوگ اس رپورٹ پر ناک بھوں سکوڑ سکتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے الگ نہیں ہے۔ مظفر پور اور دیوریا گرلز شیلٹر ہوم میں جنسی تشدد اور ’ڈو یو ریممبر کنن پوشپورا؟‘ ، ’سیکسوئل وائلنس ان ساؤتھ چھتیس گڑھ‘، ’دی مدرس آف منی پور‘ جیسی کتابیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ کرن سنگھ کی زبردست کہانی ’عیشو کی کیلیں‘ عوام مخالف سیاسی اقتدار کے سائے میں پرورش پا رہی ایسی جنسی تشدد کی بڑی خوفناک لیکن سچی تصویر پیش کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔