نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور عوام کو سلام... سہیل انجم

نیوزی لینڈ بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس کی آبادی محض پچاس لاکھ ہے۔ لیکن وہاں کے لوگوں کے دلوں کا رقبہ بہت وسیع ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے جگہ ہے جہاں وہ خوشی خوشی رہ سکتے ہیں۔

نیوزی لینڈ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن
نیوزی لینڈ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن
user

سہیل انجم

انتہائی پرامن ملک نیوزی لینڈ کے چھوٹے سے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد النور مسجد اور لِن ووڈ مسجد میں دہشت گردانہ حملوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک تنہا پاگل اور جنونی شخص نے خود کار ہتھیاروں سے ان دونوں مسجدوں میں مصلیوں کی لاشیں بچھا دیں۔ اسے نہ تو معصوم بچوں پر ترس آیا اور نہ ہی خواتین پر۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جان گنوا چکے افراد پر بھی گولیاں چلا رہا تھا اور ہیلمٹ کیمرے سے اس وحشیانہ کارروائی کو لائیو بھی کر رہا تھا۔

ان حملوں نے کرائسٹ چرچ کے باشندوں کو سکتے میں مبتلا کر دیا۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور کافی دیر تک تو ان کو یہ سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے جیسے امن پسند ملک میں بھی کوئی ایسا حیوان موجود ہے جو انسانی خون کا پیاسا ہے اور جس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اتنا زہر بھرا ہوا ہے۔

حالانکہ وہ مقامی باشندہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ وہ ایک برطانیہ نژاد آسٹریلیائی شہری ہے۔ اس کو اپنے خونی پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کرائسٹ چرچ سب سے موزوں اور مناسب جگہ لگی۔ لہٰذا ایک لمبی پلاننگ کے تحت اس نے اپنا خونی کھیل انجام دیا۔ اس کی خون کی پیاس النور مسجد میں لاشیں بچھانے سے نہیں بجھیں تو وہ ایک دوسری مسجد میں بھی جا کر یہی کھیل کھیلنے لگا۔

وہ کس طرح اسلام اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کا جوالہ مکھی اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے اس کا اندازہ اس خونی واردات سے قبل جاری کیے جانے والے 75 صفحات کے اس کے مینی فیسٹو سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور پوری دنیا اس دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔

لیکن سب سے قابل تعریف اور قابل خیرمقدم خود وہاں کی وزیر اعظم کا رد عمل ہے۔ انھوں نے بلا تاخیر اسے ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا اور ہلاک شدگان کے بارے میں کہا کہ وہ ہمارے اپنے ہیں اور ہمارے میں سے ہی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگلے روز وہ سیاہ ماتمی لباس میں نظر آئیں۔ وہ مسلم باشندوں سے ملاقات کرکے ان سے اظہار تعزیت کرتی رہیں۔ مسلم خواتین سے گلے ملتی رہیں۔ ان کے دکھ میں شامل ہوتی رہیں اور انھیں ہر قسم کی مدد کی یقین دہانی کراتی رہیں۔

وہاں کے باشندوں نے بھی جس محبت آمیز رد عمل کا اظہار کیا اس کی ستائش نہ کرنا ان کے ساتھ شدید نا انصافی ہوگی۔ حملے کے روز سے ہی مقامی عیسائی باشندوں کا مسلمانوں سے ملنا جاری ہے۔ وہ نہ صرف انھیں گلاب پیش کر رہے ہیں بلکہ انھیں یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس دکھ کی گھڑی میں وہ تنہا نہیں ہیں۔ پورا ملک ان کے ساتھ ہے۔ کئی لوگوں نے تو اشکبار آنکھوں سے مسلمانوں سے گلے مل کر اپنی محبت کی یقین دلانے کی کوشش کی۔ کئی لوگوں نے رو رو کر مسلمانوں سے اس حملے کے لیے معذرت چاہی اور کہا کہ ان کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے گا۔

دوسرے اور تیسرے روز بھی مقامی باشندوں نے مسجد النور کے پاس پولس ہیڈ کوارٹر کے سامنے گلدستوں کے انبار لگا دیئے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ ایک قسم کا اظہار یک جہتی ہے۔ وہ ان پھولوں کی مدد سے اپنے جذبات مسلمانوں تک پہنچانا چاہتے ہیں اور انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے دل میں مسلمانوں کی بڑی قدر ہے۔ ایک معمر شخص ایک تختی لے کر مسجد النور کے سامنے کھڑا ہو گیا جس پر تحریر تھا کہ اے مسلمانو! تم تنہا نہیں ہو۔ تم اندر نماز ادا کرو میں باہر تمھاری حفاظت کروں گا۔

نیوزی لینڈ بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس کی آبادی محض پچاس لاکھ ہے۔ لیکن وہاں کے لوگوں کے دلوں کا رقبہ بہت وسیع ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے جگہ ہے جہاں وہ خوشی خوشی رہ سکتے ہیں۔ وہ ایک انتہائی روادار ملک ہے۔ کئی ہندوستانی مسلمانوں نے بتایا ہے کہ مقامی باشندوں کو اس بات کا بڑا فخر ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ دفاتر میں آرکیٹکٹ سے کہہ کر ایک کمرہ نماز کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے اور وضو کرنے کا الگ سے انتظام کیا جاتا ہے۔ دفاتر کے لوگ اس بات کا فخریہ اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے پریئر روم بنائے ہیں اور نماز کے لیے خود ہی دریوں کا بھی انتظام کیا ہے۔

ایک مسلم شخص نے بتایا کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں کبھی ایسا سانحہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بقول میں اگر سڑک پر چلتے چلتے لڑکھڑا کر گر جاؤں تو سیکنڈوں میں دسیوں لوگ مجھے اٹھانے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں میں یہ کیسے مان لوں کہ یہاں کے لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک معمر مسلم شخص نے کہا کہ اگر چہ حملہ آور نے پچاس مصلیوں کو بھون دیا ہے لیکن میں یہی چاہوں گا کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ کیونکہ معافی دینے سے بڑی کوئی انسانیت نہیں۔ یہ جملہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مقامی باشندوں کے مسلمانوں سے رشتے کیسے ہیں۔ آج پوری دنیا میں وہاں کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی خوب ستائش ہو رہی ہے اور امن پسند لوگ ان کے رد عمل کو سراہ رہے ہیں۔ جیسنڈا آرڈرن اور وہاں کے باشندوں کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔

نیوزی لینڈ کے باشندوں کے مسلمانوں کے ساتھ اس محبت آمیز سلوک پر خود بخود ہندوستانی سماج کی یاد آگئی۔ کیا ہم یہاں بھی ایسا تصور کر سکتے ہیں۔ کیا یہاں کے وزیر اعظم بھی مسلمانوں کے قتل پر ماتمی لباس پہن کر مسلمانوں کے درمیان جا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کر سکتے ہیں۔ کیا یہاں کے سیاست داں بھی اسی طرح مسلمانوں سے مل کر ان سے معذرت خواہی کر سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نریندر مودی نے اس واردات کی مذمت کی ہے اور دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف بیان دیا ہے۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں بھی قاتلوں کو فوری طور پر پکڑا جا سکتا ہے اور فوراً ہی انھیں عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہاں کے غیر مسلم بھی مسلمانوں کے پاس جا جا کر ان سے اظہار محبت کر سکتے ہیں۔ کیا کسی مسجد کے باہر اسی طرح گلدستوں کے انبار لگائے جا سکتے ہیں جیسے کہ کرائسٹ چرچ میں لگائے گئے۔ کیا یہاں بھی ایسی کسی واردات پر برادران وطن خون کے آنسو رو سکتے ہیں یا کم از کم دل میں رنج و غم کا احساس کر سکتے ہیں۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو اٹھائے جانے چاہئیں لیکن کون اٹھائے اور کون ہے جو ایسے سوالوں کے جواب دے گا۔

یہاں تو صورت حال کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ جب کرائسٹ چرچ کی مسجدوں میں حملوں کی خبر پھیلی تو بہت سے سوشل میڈیا یوزرس نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ یہ خبر اس لیے شیئر کر رہے ہیں کہ یہ خوشی ان سے تنہا نہیں سنبھل رہی ہے۔

ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہاں کا قدیم فلسفہ وسودھیو کٹمبکم ہے۔ یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے۔ لیکن کیا عملی طور پر بھی یہی صورت حال ہے۔ ہمارے رہنما دنیا کے الگ الگ ملکوں میں جاتے ہیں تو مبالغہ آمیزی کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بڑی رواداری ہے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے یہ یہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں اور دنیا بھی جانتی ہے۔ کیا ہمارے حکمراں اور سماج کے بااثر طبقات اس بات پر سنجیدہ غور خوض کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس ملک میں ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی اور کیا یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نیوزی لینڈ جسیے ایک چھوٹے سے ملک سے کوئی انسانی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔