آئین کی روح نکال کر اسے ازکار رفتہ کر رہا ہے سنگھ پریوار... عبید اللہ ناصر

ضمیر فروش عوامی نمائندوں اور ان کے ضمیر خریدنے والی پارٹی کو اگر عوام ہی سبق نہیں سکھائیں گے تو جمہوریت کا جنازہ تو سنگھ پریوار نکال ہی چکی ہے اب صرف اس کی تدفین باقی ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

عبیداللہ ناصر

آر ایس ایس نے صرف جنگ آزادی کی ہی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ آزادی کے بعد آئین ہند مرتب کرنے اور قومی پرچم بنانے کی بھی مخالفت کی تھی، اس کا نظریہ تھا کہ جب یہاں منو اسمرتی موجود ہے تو نئے آئین کی ضرورت نہیں ہے اور ہندوؤں کے بھگوا پرچم کو ہی قومی پرچم تسلیم کر لیا جانا چاہیے یہی وجہ ہے کہ شاید ابھی 10-12 سال پہلے تک آر ایس ایس کے ناگپور میں واقعہ صدر دفتر پر قومی پرچم یا ترنگا نہیں لہرایا جاتا تھا۔ لیکن اس زمانہ کے ہمارے روشن ضمیر دور اندیش لیڈروں نے آر ایس ایس کے ان دقیانوسی فرقہ وارانہ نظریہ کو مسترد کر دیا اور ایک نہایت ہی جمہوری سیکولر روشن خیال سائنسی ذہن والا آئین ملک اور قوم کو دیا۔

لیکن آر ایس ایس کہاں ماننے والی تھی وہ تو ہر قیمت پر یہاں تک کہ اگر خانہ جنگی کی بھی نوبت آ جائے تو بھی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے اپنے نظریہ اور منصوبہ پر قائم رہتی اور اس بات کے لئے اس کی تعریف کی جانی چاہیے کہ مسلسل شکست کے باوجود بھی اس نے اپنے نظریہ سے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنے قیام کے قریب ایک صدی بعد آج وہ اپنے نظریہ کا ہندوستان بنانے کی جانب کافی حد تک پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ آئین ہند اس کی راہوں کا روڑا ہے اس کی ترکیب اس نے یہ نکالی ہے کہ آئین سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر اس کی روح نکال دی جائے۔ آج ملک میں جو آئینی اداروں کی پامالی، سیاسی بد اخلاقی، ضمیر فروشی وغیرہ دکھائی دے رہی ہے وہ سب اسی حکمت عملی کا حصّہ ہے۔


اس حقیقت کے آئینہ میں اگر اتر پردیش کی یوگی حکومت کے متنازعہ پوسٹر کے سلسلہ میں الہ آ باد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے کے فیصلہ کو دیکھا جائے تو کوئی حیرت نہیں ہوگی، ایک تو نہایت ہی غیر قانونی طریقہ سے شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کرنے والے شہریوں پر فرضی مقدمہ قائم کیے گئے پھر ان سے نقصان کی تلافی کا فیصلہ کیا گیا، جس پر ہائی کورٹ نے حکم امتناعی بھی جاری کر رکھا ہے، اس کے بعد بھگوڑے مجرموں کی طرح ان کے لکھنؤ میں پوسٹر لگائے گئے اور جب ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے انھیں ہٹانے کا حکم دیا تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی وہاں سے اس فیصلہ کو خارج نہیں کیا گیا یعنی معینہ مدت میں ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد ہونا چاہیے تھا۔

لیکن اقتدار کے زعم میں یہ نہیں کیا گیا، یوگی جی نے اتر پردیش کو عملاً پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنا ہے اور یہ کوئی نئی اور حیرت انگیز بات نہیں ہے اسی بی جے پی کی اتر پردیش سرکار نے سپریم میں ایک دو نہیں آدھا درجن حلف نامے داخل کر کے ایو دھیا میں بابری مسجد کے ڈھانچہ کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا اور کس طرح سپریم کورٹ تک کو دھوکہ دے کر اسے شہید کرایا گیا یہ دنیا دیکھ چکی ہے۔ اس دن صرف بابری مسجد کو ہی نہیں شہید کیا گیا تھا حقیقت میں آئین ہند کی روح کو نکالنے کی یہ پہلی منظم سازش تھی۔


سنگھ پریوار کی سب سے بڑی طاقت بھیڑ ہے اسی بھیڑ کے سہارے اس نے جمہوریت کو انبوہ گردی میں بدلنے کی مہم شروع کی تھی جس کی سب سے کریہہ مثال ایودھیا تحریک ہے جس کے سہارے اس نے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر آخر کار سپریم کورٹ سے رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرا لیا پھر اس نے قانوں ساز اداروں میں اکثریت نہ ملنے پر بھی ممبروں کو خرید کر اکثریت حاصل کرنا اس نے اپنا طریقہ بنا لیا ہے۔ مودی جی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو نہ اس کے پاس وسائل کی کمی رہی اور نہ ہی حکومتی طاقت کی، جس کے سہارے اس نے کھل کرکھیلنے کا عمل شروع کیا اور کسی بھی غیر بی جے پی ریاستی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا۔

اس کا آغاز تو در اصل اتر پردیش سے ہوا تھا جب کلیاں سنگھ کی سرکار بچانے کے لئے اس نے بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے ممبران کو کروڑوں روپیہ نقد اور وزارت کی کرسی دے کر خرید لیا ادھر اس کے اسپیکر کیسری ناتھ ترپاٹھی نے ایوان کے اندر ہاتھ کی وہ صفائی دکھائی تھی کہ آج تک بڑے بڑے قانون داں اور آئین کے ماہرین حیرت زدہ ہیں۔ انہوں نے اتر پردیش میں 102 وزیروں کی فوج کھڑی کر کے ایک نیا ریکارڈ بھی بنا دیا تھا، اس زمانہ میں صحافیوں کے درمیان ایک لطیفہ خوب چلا تھا کہ اتنے وزیر ہیں ان کو محکمے کیا دیئے جائیں گے، کیونکہ محکمے کم اور وزیر زیادہ ہیں، تو کلیان سنگھ نے یہ ترکیب نکالی کہ محکموں کو تقسیم کر دیا جائے جیسے محکمہ مویشی پالن کو 2 حصوں میں یعنی مویشی اور پالن میں تقسیم کر کے یہاں دو وزیر بنائے جا سکتے ہیں، ستم بالاۓ ستم بی جے پی نے اس بحران میں ایک نیا دھرم بھی ایجاد کر لیا تھا اور اسے آپدا دھرم نام دیا تھا اس کے بعد گوا، کرناٹک شمال مشرق کی ریاستوں اور بہار میں اس نے یہ کھیل بے شرمی سے کھیلا اور اب یہی مدھیہ پردیش میں ہوا۔


دراصل سنگھ پریوار کی حکمت عملی آئین کو کلعدم قرار دیئے بنا اسے ختم کرنے کی ہے، اس کے لئے وہ آئین کی روح پر حملہ کر رہی ہے سب سے پہلے اس نے اہم عہدوں پر ہی نہیں ہر ممکن جگہ اپنے آدمی بیٹھانا شروع کیے، پھر آئینی اداروں کی سربراہی اپنے لوگوں کو دینا شروع کی، دیگر محکموں کے علاوہ اس کا خاص نشانہ میڈیا اور عدلیہ رہی، کیونکہ یہی دونوں ستوں جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ تک عوام کے ائینی حقوق کے لئے حساس نہیں ہے، کشمیر میں جو ہو رہا اور اس کے بعد شہریت ترمیمی قانون اور اس کے خلاف ہو رہے احتجاج میں عدلیہ کے رویہ کو لے کر عوام ہی نہیں خود سابق جج صاحبان انگلی اٹھا رہے ہیں دوسری طرف میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا اور ہندی اخبار نہ صرف حکومت بلکہ سنگھ پریوار کے نظریات کے بھونپو بنے ہوئے ہیں، ملک میں مذہبی منافرت پھیلا کر اسے خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ خدا نہ کرے یہ ملک کبھی سری لنکا، شام، میانمار یا پھر پاکستان کے انجام کو پہنچا تو اس کی بہت بڑی ذمہ داری میڈیا پر ہوگی وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوشل میڈیا نے حالات کو کافی حد تک سنبھال رکھا ہے اور ہر جھوٹ افواہ اور غلط پروپیگندہ کی کاٹ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہو جاتی ہے ورنہ چینلوں نے تو ملک کی تباہی کے لئے اپنے حصہ کا کردار ادا کر دیا ہے۔

آئین کی روح نکالنے کے لئے بی جے پی 3 ایم کا بخوبی استعمال کر رہے ہیں وہ ہیں منی یعنی دولت میڈیا اور مین پاور یعنی نفری قووت۔ اس کے لاکھوں کارکن جو پوری ایمانداری و لگن سے اپنا کام کرتے ہیں، چاہے وہ دور دراز علاقوں یہاں تک جنگل میں آدیواسیوں کے درمیاں کام کرنا ہو یا موب لنچنگ میں کسی کا قتل کرنا ہو، سب کام پوری ایمانداری سے کیے جاتے ہیں۔ ا س کا استمعال حکومتوں کو بنانے بگاڑنے میں بھی کیا جارہا ہے انتخابات میں بے تحاشہ دولت خرچ کرکے مخالفین کو شکست دی جاتی ہے، پھر بھی اگر مکمل اکثریت نہ ملے تو نو منتخب ممبران کو کروڑوں روپیہ دے کر خرید لیا جاتا ہے، دل بدل قانون سے بچنے کے طرح طرح کے راستہ نکالے جاتے ہیں۔ اس طرح آئینی جمہوریت کو مویشی بازار میں بدل دیا گیا ہے۔ کوئی قانون ایسا نہیں ہے جس میں سقم نہ ہو، ایسے ضمیر فروش عوامی نمائندوں اور ان کے ضمیر خریدنے والی پارٹی کو اگر عوام ہی آئینی جمہوریت کو بچانے کے لئے سبق نہیں سکھائیں گے تو جمہوریت کا جنازہ تو سنگھ پریوار نے نکال ہی دیا ہے صرف اس کی تدفین باقی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Mar 2020, 11:11 PM