آرایس ایس کا مشن 2019، مسلم۔دلت میں ٹکراؤ

بی جے پی اور سنگھ دونوں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کو لے کر بہت بے چین ہیں اور وہ الگ الگ فارمولوں پر غور کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سال 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کا اقتدار کس طرح بچایا جا سکے ، اس کے لئے بر سر اقتدار بی جے پی اور سنگھ نے کمر کس لی ہے ۔ سنگھ کے لئے بی جے پی کا اقتدار میں رہنا بہت ضروری ہے اور وہ کسی بھی طرح یہ نہیں چاہتا کہ بی جے پی کا حال وہی ہو جو سال 2004 میں واجپئی حکومت کے ساتھ ہوا تھا ، جب بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہو گئی تھی ۔ اس کے لئے حال ہی میں فریدآباد کے سورج کنڈ میں سنگھ اور بی جے پی کے سینئر رہنما سرجوڑ کر بیٹھے ۔ اس موقع پر ریاست کے تمام ذمہ داران سے ان کی رائے پوچھی گئی او ران کو آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں بتا یا گیا۔

ذرائع کے مطابق بی جے پی اور سنگھ کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کام کی بنیاد پر نہیں جیتے جا سکتے اس لئے انتخابات کے لئے ذات پات اور مذہبی مدوں کو ہی جذباتی بنانے کی ضرورت ہے۔ سنگھ اور بی جے پی کے لئے کرناٹک میں بی جے پی کے اقتدار سے باہر رہنے اور اتر پردیش میں نئے سیاسی اتحاد کے ذریعہ تمام ضمنی انتخابات جیتنا ایک باعث تشویش ہے۔ سنگھ اور بی جے پی سب سے زیادہ پریشان اتر پردیش میں تمام حزب اختلاف کی پارٹیوں کا متحد ہونا اور بہار جیسی ریاست میں نتیش کمار کی مقبولیت میں کمی آنا اور آر جے ڈی کی مقبولیت میں اضافہ سے پریشان ہے ۔

اس اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی رپورٹ کارڈ تیار کرنے کی بات ہوئی لیکن سنگھ اور بی جے پی کے لئے ارکان پارلیمنٹ کی رپورٹ کارڈ سے زیادہ بڑا مسئلہ بڑی ریاستوں میں بی جے پی مخالف اتحاد بننا ہے ۔ بی جے پی کے لئے سب سے بڑی فکر کی بات یہ ہے کہ کس طرح دلتوں کی ناراضگی دور کی جائے کیونکہ بی جے پی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ خالص اونچی ذات کے ووٹوں سے اقتدار میں بنے نہیں رہا جا سکتا ۔ اس کے لئے سنگھ ایک ایسے منصوبہ پر بھی غور کر رہاہے جس سے دلتوں میں یہ پیغام دیا جا سکے کہ مسلمان امبیڈکر مخالف ہیں تاکہ کم از کم شمالی ہندوستان کے دلت اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر نہ آ سکیں ۔ اس کے لئے بہت ممکن ہے کہ اتر پردیش میں دلتوں اور مسلمانو ں کے درمیان فساد بھڑک اٹھیں۔

سنگھ اور بی جے پی رام مندر اور کشمیر کو بھی آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے لئے بڑا اور جذباتی مدا بنانا چاہتے ہیں۔ ادھر ریزر ویشن کے مدے کو وہ بالکل چھیڑنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ سنگھ اور بی جے پی اس پر بھی غور کر رہے ہیں کہ مسلمان کسی ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ نہ جائیں اور ان کے ووٹ تقسیم ہو جائیں ، اس کے لئے راشٹریہ مسلم منچ بہت متحرک ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے پر مسلم خواتین کو تقسیم کرنا بھی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔

سال 2014 میں بی جے پی اور سنگھ نے مل کر جو ہندوستانی عوام کو خواب دکھائے تھے ان میں سے کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ، چاہے وہ ہر شہری کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ جمع ہونے کا خواب ہو، چاہے نوجوانوں کو ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا خواب ہو، چاہے مہنگائی کم کرنے کا خواب ہو ، چاہے کسانوں کو پیداوار کی مناسب قیمت دلانے کا خواب ہو، چاہے ایک ہندوستانی فوجی کی موت کے بدلے میں دس پاکستانی فوجیوں کے سر لانے کا خواب ہو ۔ اس لئے سال 2019 کے عام انتخابات میں عوام کے پاس حکومت سے پوچھنے کے لئے بہت سوال ہیں، جس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں کام اور وعدے نہیں بلکہ جذبات کو بھڑکانے والے مدوں پر چناؤ لڑنے کی حکمت عملی پر غور کر ہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Jun 2018, 4:32 PM