تعصب کے شکار مسلمانوں کو جملے باز نہ نوکری دے سکتے ہیں اور نہ ہی انصاف...رام پُنیانی

رنگ ناتھ مشرا اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلم اقلیتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بھید بھاؤ ہوتا آرہا ہے، ایسے حالات میں ہم ایک منصفانہ سماج کی تعمیر کی سمت میں کیسے بڑھیں؟۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں ذات پات کا نظام، مساوات کی راہ میں سب سے بڑا رخنہ ہے۔ آزادی کے بعد آئین لاگو ہوا جس کے تحت سماجی و تعلیمی نقطہ نظر سے پسماندہ ایس سی اور ایس ٹی کے لئے ریزرویشن کا التزام کیا گیا۔ اس کے بعد جب سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کو چودھری دیوی لال سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کر کے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو 27 فیصد ریزرویشن فراہم کر دیا۔ حال ہی میں جاٹ، مراٹھا، پٹیل اور دیگر رسوخ دار ذاتوں نے بھی ریزرویشن کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس مطالبہ کو لے کر گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف طبقات نے تحریکیں چلائیں اور ریاستی حکومتوں کو پس و پیش میں ڈال دیا۔

اسی پس منظر میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اعلیٰ ذاتوں کے اقتصادی طور پر پسماندہ خاندانوں کے لئے 10 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی وزرا کونسل کی طرف سے ریزرویشن بل کو ہری جھنڈی ملنے کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے بھی منظوری حاصل ہوگئی اور صدر نے بھی اس پر مہر ثبت کر دی۔

’یوتھ فار اکویلٹی‘ نامی تنظیم ریزرویشن کی یہ کہہ کر مخالفت کرتی آئی ہے کہ کسی بھی کام کو حاصل کرنے کی واحد بنیاد قابلیت ہونی چاہیے، اس تنظیم نے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی جماعت کے طور پر بی جے پی ہمیشہ ریزرویشن کی مخالف رہی ہے۔ دائیں بازو کے لوگوں نے ریزرویشن کی مخالفت میں کئی تحریکیں بھی چلائیں۔ سال 1980 میں دلتوں کے لئے کوٹا مقرر ہونے کے خلاف فساد ہوئے، جس کے دوران دلتوں کو تشدد کا شکار بنایا گیا۔ اسی طرح 1985 کے بعد پرموشن (ترقی) میں ریزرویشن نظریہ کی مخالفت میں ایک مرتبہ پھر تشدد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کیے جانے کی مخالفت کرنے والی واحد جماعت شیو سینا تھی۔ ریزرویشن مخالف ہونے کا دعوی کرنے والی بی جے پی انتخابی وجوہات سے منڈل کمیشن کی مخالفت نہیں کر پائی۔ لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نے کمنڈل کی سیاست شروع کر دی اور رام مندر تحریک کے نام پر سماج کو مذہب کی بناد پر تقسیم کر کے ملک میں خون خرابے کا ماحول تیار کیا۔

ابھی ریزرویشن کی اعلی ترین حد 50 فیصد ہے جو 10 فیصد ریزرویشن کے ساتھ 60 فیصد ہو جائے گی۔ یہ اضافہ عدلیہ کو منظور ہوگا یا نہیں، یہ ابھی دیکھا جانا باقی ہے۔ لیکن 10 فیصد ریزرویشن کی اہلیت کی جو شرائط ہیں وہ حیران کن ہیں۔ ان کے مطابق 8 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی والے لوگ اور شہروں میں ایک ہزار مربع فٹ رقبہ کے مکان اور گاؤں میں پانچ ایکڑ تک کی زمین کے مالک ریزرویشن کے اہل ہوں گے۔ اس لحاظ سے تو ملک کی 90 فیصد آبادی اس زمرے میں آ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ریزرویشن نظریہ کو اس سے زک پہنچے گی اور اعلیٰ ذات کے غریبوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

صاف ہے کہ حکومت کا یہ ارادہ قطعی نہیں ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کے غریبوں کو آگے آنے کا موقع ملے۔ اب تک ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی سمیت جو طبقات اس کا فائدہ لیتے آ رہے ہیں، انہیں سماج میں گری نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ ان طبقات کو ملنے والے ریزرویشن کو غیر موثر بنانے کے لئے بڑی تعداد میں نجی کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، جن میں داخلہ کے لئے اہلیت سے زیادہ دولت درکار ہوتی ہے۔ اہلیت بڑی یا پیسہ، یہ کھیل دہائیوں سے چل رہا ہے اور اس میں سے کون بڑا ہے اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔

یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جہاں ریزرویشن کو لے کر اتنا ہنگامہ برپا ہے وہیں سرکاری محکموں میں ہزاروں عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں اور اہم کاموں کی آؤٹ سورسنگ کرائی جا رہی ہے۔ ہمارے قانون ساز یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس قدم سے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا کیوںکہ نوکریاں موجود ہی نہیں ہیں۔ چاہے سرکاری ہوں یا عوامی ہر جگہ نوکریوں کا بحران ہے۔ اس کے باعث نوجوانوں میں شدید غصہ ہے۔ نہ ہی خالی عہدے بھرے جا رہے ہیں اور نا ہی نئے عہدے پیدا ہو رہے ہیں، تو پھر ریزرویشن کے کیا معنی۔ کیا یہ ایک جھنجھنے کے مترادف نہیں ہے؟۔

سماجی ناانصافی کے علاوہ مذہبی تعصب کی وجہ سے بھی لوگ غریبی اور بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ رنگ ناتھ مشرا اور سچر کمیٹی کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہے کہ مسلم اقلیتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بھید بھاؤ ہوتا آ رہا ہے، ایسے میں ہم ایک منصفانہ سماج کی تعمیر کی سمت میں کیسے بڑھیں؟ جملے اچھالنے والے رہنما نہ تو انصاف فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی نوکریاں۔ ہمارے سماج کے سامنے جو مسائل درپیش ہیں ان سے نمٹنے کے لئے ہمیں شمولیت کے ایجنڈے پر چلنے والی حکومت درکار ہے۔

اعلیٰ ذات سماج کے لئے اقتصادی طورسے ریزرویشن دینا مودی اور بی جے پی کا ایک اور جملہ ہے۔ جس سے اعلیٰ ذات کے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینا ایک طرح سے اس بات کا اعتراف ہے کہ مودی حکومت غریبی دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس طرح ہمارے آئین میں ریزرویشن کی بنیاد کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش بھی ہے۔ ریزرویشن کوئی انسداد غریبی پروگرام نہیں ہے، غریبی کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن کارپوریٹ گھرانوں کی حامی حکومت سے ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ غریبوں کی بھلائی میں مثبت اور واجب قدم اٹھائے گی۔

(مضمون نگار آئی آئی ٹی ممبئی میں تعلیم دیتے ہیں اور سن 2017 کے نیشنل کمیونل ہارمونی ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔