بے روزگا ری کے ماحول میں ریزرویشن کا ’لالی پاپ‘

حکومت ہند کی وزارت محنت و تربیت کی حال ہی میں آئی رپورٹ نے بی جے پی کی زیرقیادت مودی حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم عہدے کے امیدوار کے طور پر نریندرمودی کے ذریعہ نوجوانوں کو روزگار دینے اور آنے والی نسلوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے خوب وعدے کیے گئے تھے جس کی وجہ سے روزگار کے متلاشی تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو ’جبراً‘ یقین کرنا پڑا تھا کہ معجزاتی تبدیلی آنے والی ہے مگرگزشتہ تقریباً 5 سالوں میں جس طرح ان بے روزگاروں کی امیدوں اور خواہشات کا قتل کیا گیا اس سے یہ طبقہ اب خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی بی جے پی اوراس کے سینئر لیڈران اب 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے گھبرا رہے ہیں۔

حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام نے جب بی جے پی اوراس کی حلیف جماعتوں کو شکست دی تو بھگوا بریگیڈ کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور پھر اس کا کفارہ ادا کرنے کے لئے عام طبقے کے غریبوں کو10 فی صد ریزرویشن دینے کااعلان کرنا پڑا حالانکہ ریزرویشن کے فیصلے کوزیادہ ترلوگ عام انتخابات سے قبل حکومت کا ’لالی پاپ‘ قرار دے کرکہتے نظرآرہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دکھائے گئے ریزرویشن کےخواب کو شرمندہ تعبیر ہونا آسان نہیں ہوگا۔

سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں عام طبقے کے غریبوں کو 10 فیصد ریزرویشن کوآناً فاناً میں نافذ بھی کردیا گیا اور وزیراعظم نریندرمودی کے آبائی صوبہ گجرات نے سب سے پہلے اس سمت میں کام کرنا شروع بھی کر دیا ہے مگر اب یہ معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے جس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مودی حکومت کی یہ کوشش بھی ناکام ہوجا ئے گی۔ معلوم ہوکہ اس سے پہلے تعلیم اور ملازمتوں میں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کو 15 فی صد، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کو 7.5 فی صد اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو 28 فی صد ریزرویشن ملا ہوا ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں فی الحال 3.75 فی صد لوگ ہی سرکا ری ملازمتیں کر رہے ہیں اور سرکاری ایجنسیوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یوپی ایس سی، ایس ایس سی، بینکنگ اورسینٹرل پبلک سیکٹر میں گزشتہ تین سالوں میں ملازمتیں لگاتار کم ہورہی ہیں۔

غورطلب ہے کہ ہندوستان میں اب بھی صرف 3.54 فی صد لوگ ہی منظم پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کرتے ہیں جبکہ 42 فیصد آبادی اب بھی زراعت اور اس سے متعلق دیگر علاقوں پر ہی انحصار کرتی ہے۔ ملک میں موجودہ منظم اور غیر منظم سیکٹر میں دستیاب ملازمتوں میں سے صرف 2.7 فی صد ہی سرکاری ملازمتیں ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر (پی ایم او) کے ماتحت وزارت محنت و تربیت کی حال ہی میں سامنے آئی رپورٹ نے بی جے پی زیرقیادت مودی حکومت کی قلعی کھول دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2017 کے درمیان روزگا ر کے مواقع لگاتار کم ہوئے ہیں۔ سال 2015 میں جہاں سرکاری ملازمتوں کی تعداد 1,13,524 تھی، جو2017 میں 1,00,933 رہ گئی ہیں۔ وزارت محنت نے یہ اعداد و شمار یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور ریلوے بھرتی بورڈ کے ذریعے جمع کیے ہیں۔ اسی طرح بھاری صنعت اور پبلک سیکٹر وزارت کے مختلف اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2012 میں سینٹرل پبلک سیکٹر انٹرپرائز (سی پی ایس ای) میں ملازمین کی تعداد 16.91 لاکھ سے کم ہوکر2017 میں 15.23 لاکھ رہ گئیں۔

وہیں کنٹریکٹ اور غیر رسمی کارکنوں کی تعداد کو باہر رکھا جائے تو 2017 میں سی پی ایس ای کی طرف سے ملازم لوگوں کی تعداد 11.31 لاکھ رہ گئی جو 2016 میں 11.85 لاکھ تھی۔ اس طرح افسرعہدے پرنوکری لینے والوں کی تعداد میں 4.5 فی صد اور کلرک نیز اس سے نیچے کے عہدوں پرملازمتوں کی تعداد میں 8 فی صد کی گراوٹ دیکھنے کوملی ہے۔

حالانکہ اس رپورٹ میں ریاستی حکومت، وزارت اور محکمہ، مالیاتی ادارے اور مرکز اور ریاستوں کے تحت یونیورسٹیوں کو شا مل نہیں کیا گیا ہے۔ یہی حال بینکنگ سیکٹر میں بھی دیکھنے کوملا ہے۔ آربی آئی کے مطابق سرکاری بینکوں میں بھی افسر کے عہدے پر تو ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے لیکن کلرک اور اس سے نیچے ملازمتیں کم ہوئی ہیں۔ سال 2015 میں 1,13,524 تقرریاں ہوئی تھیں جو 2017 میں گھٹ کر1,00,933 رہ گئیں۔

سینٹرل پبلک سیکٹر سے متعلق ملازمتوں میں کمی کے بارے میں وزارت صنعت کے ایک افسر نے بتایا کہ سی پی ایس ای میں مین پاور پلاننگ اور تعیناتی (یعنی ملازمتیں) سیکٹر کے کاروباری منصوبے کے مقاصد اور اہداف، کاروباری حالات، ضروریات اور دیگر چیزیں جیسے کہ آپریشن، توسیع اور سرمایہ کاری منصوبہ بندی وغیرہ سے جڑی ہوتی ہیں۔ ملازمتوں کی تعداد میں جو تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اس کے پیچھے ریٹائرمنٹ، رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی اور رضاکارانہ علٰحدگی جیسے اسباب بھی شامل ہیں۔

بتادیں کہ حکومت اس کے اعداد وشمار نہیں رکھتی ہے کہ کتنی نوکریاں پیدا کی گئی ہیں یا کتنے لوگ ریٹائرڈ ہیں۔ وہیں بینکوں کے معاملے میں آر بی آئی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کل روزگار میں تقریباً 4.5 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن اضافہ افسران کے کام پر رکھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ دو دیگر نوکریوں کے زمرے کلرک اور ماتحت ملازمین (سب آرڈینیٹ اسٹاف) میں بھرتی مالی سال 2015 اور مالی سال 2017 کے درمیان تقریبا 8 فی صد نیچے چلی گئی ہے۔

وزارت محنت کے 2016 کے آخری سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2013 میں مرکزی حکومت کی براہ راست بھرتیوں میں 1,54,841 لوگوں کو نوکری ملی تھی جبکہ 2014 میں یہ تعداد کم ہوکر 1,26,261 رہ گئی۔ 2015 میں یہ تعداد اور بھی کم ہوئی اور محض 15,877 لوگ ہی مرکز کی براہ راست بھرتیوں میں نوکری پاسکے۔ 2013 کے مقابلے 2015 تک درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ ذاتوں کو دی جانے والی ملازمتوں میں 90 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

اسی سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2013 میں اس طبقے کے 92,928 لوگوں کو مرکزی حکومت نے براہ راست بھرتیوں میں نوکری دی، جبکہ 2014 میں یہ کم ہو کر 72,077 رہ گئی اور 2015 میں صرف 8,436 لوگوں کوہی ملازمت دی گئی۔ ریلوے کی بات کریں تو گزشتہ سال صرف 90 ہزار ملازمتوں کے لئے انڈین ریلوے کو1.5 کروڑ درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان 90 ہزارعہدوں میں سے63 ہزار گروپ ڈی کے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔