مودی راج مسلمانوں کے لئے سنہ 47 سے زیادہ خطرے کا دور .. ظفر آغا

یوں تو ملک میں کوئی گجرات جیسا فساد نہیں ہوا لیکن اخلاق جیسے موب لنچنگ کے واقعات نے مسلم اقلیت کے دلوں میں ویسی ہی دہشت پیدا کر دی جیسی کہ سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد پیدا ہو گئی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

سنہ 2014 میں جب نریندر مودی اقتدار میں آئے تو ہندوستانی اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت میں دہشت کا ماحول چھا گیا۔ ہر ذہن میں بس ایک ہی سوال تھا کہ کیا اب سارا ہندوستان سنہ 2002 کے گجرات میں تبدیل ہو جائے گا! اور یہ کوئی بے جا خدشہ نہیں تھا۔ نریندر مودی حکومت کے بارہ سال گجرات میں وہاں کے مسلمانوں کے لیے المناک ثابت ہوئے۔ سنہ 2002 میں پورے گجرات میں مسلم نسل کشی ہوئی جس میں نریندر مودی کا کردار بہت ہی مشتبہ رہا۔ تب سے آج تک گجرات کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہاں مسلمان اب دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت میں جی رہا ہے۔ اس پس منظر میں جب نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنے تو اقلیتوں میں گھبراہٹ پیدا ہونا فطری تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کے چار سالوں کے درمیان مسلمانوں کو کم از کم نفسیاتی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کی بھرپور کوشش ہوئی۔ یوں تو ملک میں کوئی گجرات جیسا فساد نہیں ہوا لیکن اخلاق جیسے موب لنچنگ کے واقعات نے مسلم اقلیت کے دلوں میں ویسی ہی دہشت پیدا کر دی جیسی کہ سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد پیدا ہو گئی تھی۔ کبھی قصاب خانوں پر پابندی تو کبھی دہلی سے چند میل دور گروگرام میں نماز پڑھنے پر رخنے تو کبھی اذان پر لعنت ملامت. الغرض ہر طرح سے سنگھ پریوار مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس دلاتا رہا اور مودی حکومت بہت سوچے سمجھے طور پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ میں نے ہندوستان کا بٹوارا نہیں دیکھا اور مجھے سنہ 1947 میں ہونے والے فسادات کا اندازہ نہیں ہے لیکن جنھوں نے سنہ 1947 اور مودی دور دونوں دیکھا ہے۔ ان سے اکثر سنا کہ چند علاقوں کے علاوہ ہندوستان میں ایسی دہشت سنہ 1947 میں بھی نہیں تھی جیسی کہ مودی کے دور میں رہی۔ موب لنچنگ ایسا دل دہلانے والا واقعہ ہے جو کسی بھی قوم کی رات کی نیندیں حرام کر سکتا ہے۔

الغرض، مودی جی اور سنگھ نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن اس ملک کی مسلم اقلیت آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔ معاشی اعتبار سے ہندوستانی مسلمان 1947 سے اب تک بدترین حالات میں پہنچ ہی چکا تھا۔ سماجی اور تعلیمی اعتبار سے بھی ہندوستانی مسلمان اب دلتوں کے مقابلے پر ہے۔ مودی جی اور سنگھ نے جو دہشت پھیلائی ہے وہ نفسیاتی زیادہ ہے۔ کوئی بھی حاکم وقت 15-14 کروڑ آبادی والی اقلیت کو آخر کتنا مٹا سکتا ہے! اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مودی رہیں یا نہیں، مسلم اقلیت کو وہ ختم نہیں کر سکتے۔

لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ خطرہ نہیں ہے۔ میری رائے میں سنہ 2014 سے 2018 تک کا خطرہ مسلم اقلیت کے لیے سنہ 1947 سے زیادہ بڑے خطرے کا دور رہا ہے۔ یاد رکھیے کہ قوموں کے لیے ایسے حالات لمحہ فکریہ ہوتے ہیں۔ سنہ 1857 میں جب مغل سلطنت کا زوال ہوا اور ملک پر غلامی طاری ہو گئی تو اس وقت کی بدحالی میں مسلمانوں میں سر سید احمد خان جیسا رہبر پیدا ہوا۔ سرسید نے اس وقت جو ترقی کی راہ دکھائی وہی راہ آج بھی مسلمانوں کے لیے ترقی اور عروج کی راہ ہے۔ ہر وہ قوم جو اپنے زمانے کی علوم سے لیس ہوتی ہے اس کو کسی بھی دور کا مودی مٹا نہیں سکتا ہے۔ اس انتہائی آشوب کے دور میں مسلم اقلیت کو پھر سر سید کی تلقین پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر علم ہے تو عقل ہے اور اگر عقل ہے تو بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور اگر علم و عقل نہیں تو اخلاق کی طرح بے موت مر کر دہشت میں بے معنی زندگی جیتے رہیے۔ اس لیے مودی کے اس دور میں اگر کوئی راستہ ہے تو وہ تعلیم کا راستہ ہے اور اسی میں بقا ہے۔

لیکن محض تعلیم ہی کسی پوری قوم کے مسائل کا مداوا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہر دور میں ہر قوم کو سب سے پہلے سیاسی حالات سے نمٹنے کا شعور بھی ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کے ساتھ سیاسی شعور میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اس وقت کے سیاسی تقاضوں سے نپٹنے کے لیے ایک حکمت عملی ضروری ہوتی ہے۔ سنہ 2019 میں اگلا لوک سبھا انتخاب ہونا ہے۔ اس میں اقلیتوں کے لیے صرف ایک ہی سوال ہے کہ مودی کو کس طرح روکا جائے۔ یہ صرف اقلیتوں ہی نہیں بلکہ تمام سیکولر ہندوؤں کا بھی مسئلہ ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتیں، اکثریت کے ان سماجی طبقوں اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اور متحد ہو کر بی جے پی کو کامیاب ہونے سے روکیں۔ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ اس سلسلے میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کو جذبات ترک کرنے ہوں گے۔ ووٹ اس بات پر نہیں دیا جا سکتا کہ فلاں شخص کسی مجلس یا کسی جماعت کا مسلم نمائندہ ہے۔ ووٹ محض اس حکمت عملی سے دیا جانا چاہیے کہ کس پارٹی کا نمائندہ بی جے پی کو ہرا سکتا ہے۔

اقلیتوں کی بقا اور تحفظ اسی بات میں ہے کہ وہ ابھی سے ایک ایسی سیاسی حکمت عملی تیار کریں جو 2019 میں مودی کو دوبارہ برسراقتدار آنے سے روک دے۔ اور یہ کام سنہ 2019 میں کانگریس پارٹی کی قیادت میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سیاسی حقیقت ہے اور اس میں ہی اقلیتوں اور اکثریت سب کا بھلا ہے۔ اس لیے ابھی سے سرگرم ہو کر اس حکمت عملی پر کارگر ہونے کی ضرورت ہے۔ اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔