راہل گاندھی کا استعفی اور کانگریس کے لئے اہم پیغام... ظفر آغا

راہل گاندھی ایک الگ ہی قسم کے رہنما ہیں اور کانگریس کارکنان کے نام تحریر شدہ اپنے خط میں انہوں نے جس طرح سمجھایا کہ انہیں کیوں عہدہ صدارت چھوڑ دینا چاہئے، وہ کانگریس کے لئے ایک اہم پیغام ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

راہل گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں ہار کی ذمہ داری لیتے ہوئے جب 25 مئی کو کانگریس ورکنگ کمیٹی کے سامنے استعفی کی پیش کش کی تو ابتدائی رد عمل یہی ظاہر کیا گیا کہ یہ محض ایک سیاسی مظہر ہے اور وقت کے ساتھ یہ معاملہ دب جائے گا۔ اس کے بعد کئی ہفتے گزر گئے۔ کانگریس کارکنان نے راہل گاندھی سے استعفی واپس لینے کی اپیل کے ساتھ بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ اس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید راہل گاندھی کارکنان کے آگے جھک جائیں گے اور اپنا استعفی واپس لے لیں گے۔ لیکن 3 جولائی کو راہل گاندھی نے ایک خط تحریر کر کے یہ واضح کر دیا کہ آخر کیوں وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہونے پر بصد ہیں۔

راہل گاندھی کے ساتھ کچھ ذاتی ملاقاتوں اور ان کی عوامی زندگی کو نظر میں رکھتے ہوئے میں ان کے بارے میں جو تھوڑا بہت سمجھ سکا ہوں اس بنیاد پر میں بلا جھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ راہل گاندھی کوئی معمولی سیاست داں نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ ایسے کوئی درویش نہیں ہیں جسے اقتدار سے کوئی گرض نہ ہو تاہم یہ حقیقت ہے کہ وہ محض اقتدار کے حصول کے لئے سیاست نہیں کر ہے۔ سیاست کے لئے کچھ طے شدہ خیالات اور اقدار پر وہ سنجیدگی سے عمل کرتے ہیں اور اپنی عوامی زندگی میں بھی انہیں اختیار کرتے ہیں۔


اپنے خط میں راہل گاندھی نے اپنی سیاسی اقدار کو واضح طور پر سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’بی جے پی کے حوالہ سے ان کے دل میں نہ تو کوئی نفرت ہے اور نہ ہی غصہ لیکن میرا روم روم ہندوستان کے لئے بی جے پی کے خیالات کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے ہندوستان کے حوالہ سے بی جے پی کے نظریات کو بھی واضح کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’جہاں انہں اختلاف نظر آتا ہے وہاں مجھے یکسانیت نظر آتی ہے۔ جہاں انہیں نفرت نظر آتی ہے وہاں مجھے محبت نظر آتی ہے۔ جہاں انہیں خوف نظر آتا ہے میں گلے لگاتا ہوں۔‘‘ راہل گاندھی صاف طور پر ہندوستان کے اس نظریہ کو فروغ دے رہے ہیں جو رواداری، کثیر ثقافتی، کثیر لثانی اور کثیر طبقاتی ہے اور جو اس ملک کی تہذیب کی بنیاد ہے۔

بی جے پی کا ہندوتوا کا نظریہ ایک قوم، ایک زبان اور ایک ثقافت پر مبنی ہے جو راہل گاندھی کے نظریہ سے یک دم جدا ہے۔ بی جے پی کا نظریہ ہندوستانی تہذیب کی بنیاد کے خلاف ہے۔ اسی لئے راہل گاندھی نے لکھا، ’’میرے بدن کا روم روم ان کے نظریہ کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘ 2019 کے انتخابات میں راہل گاندھی کی لڑائی دراصل نظریاتی جنگ تھی۔ بد قسمتی سے کانگریس کے دیگر رہنما اور کارکنان شاید نظراتی جنگ کو سمجھ نہیں پائے اور ان کے لئے یہ اقتدار کے لئے ایک جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ نظریات کی جنگ میں کئی مرتبہ انہوں نے خود کو تنہا کھڑا پایا۔ پارٹی متحد ہونے میں ناکام رہی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔


یہ بدقسمتی ہی تھی کہ تمام کانگریسیوں کی بھیڑ میں راہل گاندھی تنہا کھڑے تھے۔ انہوں نے ہار کی ذمہ داری بھی اکیلے ہی قبول کی۔ حالانکہ یہ جگ ظاہر ہے کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ کوئی بھی راہل گاندھی پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ وہ انتخابی تشہیر کے دوران بی جے پی سے جنگ کو لے کر سنجیدہ نہیں تھے۔ انہوں نے صف اول کھڑے ہو کر بے مثال ہمت اور عزم کے ساتھ پارتی کی قیادت کی۔ یہ کہنے میں بھی کوئی گریز نہیں ہے ’بالاکوٹ‘ ہونے تک بی جے پی کی ہار کے آثار نظر آ رہے تھے لیکن بالاکوٹ کے بعد پیدا کی گئی قوم پرستی چالاکی سے سامنے کی گئی اور آخری وقت میں بازی بی جے پی کے ہاتھ لگی۔

راہل گاندھی نے دسمبر 2017 میں کانگریس پارٹی کا صدارتی عہدہ سنبھالا۔ 2017 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے درمیان انہوں نے گجرات، کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی قیادت کی۔ نریندر مودی کو انہیں کے آبائی صوبے گجرات میں ناکو چنے چبوا دئے اور بی جے پی وہاں بمشکل جیت سکی، وہ بھی پہلے سے کم اکثریت کے ساتھ۔ کیا اسے راہل گاندھی کا کمال نہیں کہیں گے جس نے کانگریس کارکنان اور رہنماؤں میں نئی جان پھونک دی اور جہاں کئی برسوں سے کانگریس اقتدار سے بہار تھی وہاں حکومتیں قائم ہوئیں۔ ایسے حالات میں راہل گاندھی کی لیڈر شپ کی قابلیت پر سوال کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے۔


باقی جو کچھ بھی ہوا اسے سب نے دیکھا۔ کانگریس نے یقینی طور پر 2019 کی تشہیر کی جنگ ہاری۔ اگر اس ہار کی ذمہ داری کسی نے لی تو وہ راہل گاندھی ہی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ذمہ داری بھی اسے ہی لینی پڑی جس نے مرد مجاہد کی طرح مقابلہ کیا اور ان نظریات کے لئے جی جان لڑا دی جو کانگریس کی قدریں ہیں۔

کانگریس کا سانحہ یہ ہے کہ آج پارٹی کے رہنما اور کارکنان کو ان قدروں کی فکر ہی نہیں جن پر کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پارٹی نے صرف اقتدار کے لئے لڑائی کی نہ کہ کانگریس کی قدروں کے لئے۔ اور اس ضمن میں راہل گاندھی کئی جگہ تنہا کھڑے نظر آئے اور جس اقتدار کے لئے کانگریسی کوشش کر رہے تھے وہ بھی پارٹی کے ہاتھ نہیں لگ سکی۔ اس لئے کانگریس کارکنان اور رہنماؤں کے لئے راہل گاندھی کا پیغام ایک اہم اشارہ ہے کہ صرف کثیر جہتی ہندوستان کا نظریہ ہی اقتدار کے لئے ہونا چاہئے، باقی سب بے کار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jul 2019, 9:50 PM