رافیل کا جنّ اب بوتل سے باہر آ چکا ہے، واپس نہیں جانے والا... مرنال پانڈے

وقت کئی زخم بھر دیتا ہے، جو نہیں بھرتے انھیں عدالتی کارروائی کا حوالہ دے کر پارلیمنٹ و میڈیا کی نظروں سے دور کیا ہی جا سکتا ہے۔ رافیل معاملہ میں بھی یہی ہوا۔ لیکن اولاند کے بیان سے سب کچھ الٹا پڑ گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

گزشتہ حکومت کے زمانے میں فرانس حکومت کے ساتھ ہوئے کل جمع 126 رافیل طیاروں کی خرید کو موجودہ حکومت کے ذریعہ محض 36 رافیل طیاروں تک محدود کرنے والا تاریخی معاہدہ واقعی سمجھ سے پرے ہے۔ فرانس کے سابق صدر اولاند اور ہندوستان کے معزز وزیر اعظم کے ذریعہ 2015 میں دستخط شدہ معاہدہ کے آخری مسودے میں شاید یہ لکھا ہوا تھا کہ فرنچ کمپنی دسالٹ کی مدد سے فرانس اور ہندوستان کے سرکردہ لیڈر ملک کی سیکورٹی کے لیے ایک نایاب ہوائی چوکھٹا بنانے جا رہے ہیں جس میں تین فرانسیسی اور ان میں سے ایک کے ساتھ شراکت داری بنا چکی ہندوستانی پرائیویٹ کمپنی اہم حصہ ہوں گی۔ اور جب تک یہ چوکھٹا ایک ’اُڑن ہاری‘ (فلائی اَوے) حالت میں طیارہ بنا کر کل مال کی ڈیلیوری نہ کر دے، اپوزیشن یا میڈیا کے ذریعہ اس معاہدہ کی قیمت، سائز، پرانے ٹنڈر کے ختم کرنے کے اسباب، اس سے کس ہندوستانی کمپنی کو کتنا فائدہ ہوا یا پھر ہندوستان کے ایک تجربہ کار سرکاری مشینری کی جگہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے طیارہ کنسٹرکشن کے شعبہ میں اتری پرائیویٹ کمپنی کو کیسے فرنچ کمپنی کا غیر ملکی نمائندہ بنا دیا گیا؟ یا معاہدہ کا قومی سیکورٹی کی نظر تجزیہ کرنا، ملک سے غداری ہی نہیں نجی کمپنی کی سنگین ہتک عزتی کے تحت سنگین قانوناً جرم سمجھا جائے گا۔

خلق خدا کا، ملک بادشاہ کا اور حکم وزیر دفاع کا۔ میڈیا میں حکم کی عدولی کرنے والوں کو زبردست جرمانے کے کئی کئی نوٹس بھی روانہ کر دیے گئے۔ وقت کئی زخم بھر دیتا ہے اور جو نہیں بھرتے ان پر معاملے کی عدالتی کارروائی کا ٹھپّا لگا کر ان کو پارلیمنٹ اور میڈیا کی نظروں سے دور تو کرایا ہی جا سکتا ہے۔ رافیل معاہدہ میں بھی یہی ہوا۔ لیکن اچانک مورخہ 21 ستمبر 2018 کو اس مسودہ پر دستخط کرنے والے فرانس کے سابق صدر اولاند نے یہ کہہ کر مدھو مکھی کا چھتّہ چھیڑ دیا کہ اپنی خدمات پیش کر رہی خاص ہندوستانی کمپنی کو فرنچ کمپنی کا نمائندہ چننے کا کام حکومت ہند کی کوشش اور خواہش کے تحت ہی ہوا تھا۔ فرانس کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔

لیکن تب سے اب تک فرانس کی موجودہ حکومت جس کے اس معاہدہ سے بیش قیمتی معاشی مفاد جڑے ہیں، خاموش ہے۔ حالانکہ قبل میں موجودہ صدر ایمینوئل میکرو اپنے ملک میں یہ متنازعہ بیان دے چکے ہیں کہ ہندوستانی کمپنی کی ایک فلم ساز شاخ نے ان کے سابق صدر محترم کی دوست کو لے کر ایک فلم بھی بنائی۔ فرانسیسی میڈیا میں اولاند نے اس کی تردید کی ہے اور ہندوستانی کمپنی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

سوراج کو عوام کے ہر طبقے کی نظروں میں قانونی، متوازن اور قریب ہونا چاہیے، یہ فلسفہ گاندھی جی نے ہم کو دیا تھا۔ 2 اکتوبر کو ہم کئی سرکاری تقاریب کے ساتھ ان کی 150ویں یوم پیدائش کی شروعات کرنے جا رہے ہیں، لیکن حالیہ تجربات کی روشنی میں عام آدمی سے لے کر اپوزیشن اور میڈیا تک کو ملک ایک دور دراز، غیر ملکی اور حملہ آور نظر آنے لگا ہے۔ اگر کچھ بچا ہے تو صرف جرأت کے ذریعہ تاج حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والی پارٹیاں ہیں، اور ان کی پروا کیے بغیر خاموشی کے ساتھ پیٹ پالنے میں مصروف عوام ہے۔ ادا نہ کیے گئے قرضوں سے پریشان بینکوں، نوٹ بندی اور بغیر تیاری کے نافذ کیے گئے جی ایس ٹی اور آدھار جیسے منصوبوں نے بازار اور کاروبار کا طریقہ تک بدل دیا ہے۔ جمہوریت کا امرت اور ’کلپ ورکچھ‘ وغیرہ تو لیڈروں کی تقریروں سے ہم بار بار جان چکے ہیں لیکن اس کا رافیل معاہدہ جیسا ہلاہل بھی بار بار ابھرتا رہتا ہے۔ اور اب وہ اتنا وسیع بن گیا ہے کہ وہ انتخابی ہومیوپیتھی کی جملہ گولیوں سے ختم ہونے والا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔