کیا اب بھی اس میں کوئی شبہ ہے کہ ’کام دار‘ دراصل ’چوکیدار‘ نہیں ’داغدار‘ ہے!

رافیل معاہدہ سے متعلق ہو رہے یکے بعد دیگرے انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ پی ایم مودی دودھ کے دھلے نہیں ہیں اور مسٹر کلین تو بالکل بھی نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

وزیر اعظم نریندر مودی اکثر خود کو ’کام دار‘ اور اپوزیشن لیڈروں کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں ’نام دار‘ کہتے رہے ہیں۔ یعنی تنہا وہی ہیں جو کام کے دَم پر یہاں تک پہنچے ہیں اور باقی تو صرف نام سے ہی بڑے ہو گئے ہیں۔ لیکن رافیل معاہدہ سے متعلق یکے بعد دیگرے ہو رہے انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ دودھ کے دھلے نہیں ہیں اور ’مسٹر کلین‘ تو بالکل نہیں۔ جب تک کسی غیر جانبدارانہ جانچ میں انھیں جب تک کسی غیر جانبدارانہ جانچ میں انھیں کلین چٹ نہیں ملتی تب تک تو اُن پر شبہات کے بادل منڈلاتے ہی رہیں گے۔

یہ بھی کسی بازی گری سے کم نہیں ہے کہ اتنے دنوں تک وہ اپنی شبیہ کو صاف ستھرا ہی دکھاتے رہے۔ 14-2013 میں مودی کی انتخابی تشہیر میں جس طرح پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، سوال تو اسی وقت اٹھنے چاہیے تھے۔ لیکن جب تشہیر کے دوران وہ اڈانی گروپ کے ذریعہ مہیا کرائے گئے پرائیویٹ طیارے میں ملک کے آسمان پر اڑ رہے تھے تو کسی نے نہیں پوچھا کہ 400 سے زیادہ ریلیوں تک پہنچنے کے لیے استعمال اڑن کھٹولے کا پیسہ کس نے اور کتنا دیا۔ یہاں تک کہ انتخاب میں کامیابی کے بعد بھی جب انھوں نے راجدھانی دہلی کا رخ کیا تو بھی سفر کے لیے انھیں پرائیویٹ طیارے کے پنکھ ہی ملے۔

گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی میں اڈانی گروپ اور مودی کا ستارا ایک ساتھ ہی بلند ہوا ہے۔ ایک طرف مودی سیاسی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ساتھ ہی اڈانی گروپ چکرا دینے والی ترقی کر رہا تھا۔ کارپوریٹ کو لبھانے کے لیے نریندر مودی کا ’وائبرینٹ گجرات‘ سمیلن کی اسپانسرشپ بھی اڈانی گروپ کی ہی تھی۔ اس تقریب کے بعد مودی-اڈانی رشتہ کوئی راز نہیں رہ گیا تھا۔

ہاں، اس وقت انگلیاں ضرور اٹھی تھیں، جب خبر آئی کہ صنعت کار گوتم اڈانی نہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں بلکہ سارے پروٹوکول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انھیں اسی منزل پر ٹھہرایا جاتا ہے جس پر پی ایم رکتے ہیں۔ پی ایم مودی جب آسٹریلیا گئے تو اڈانی بھی ان کے ساتھ تھے۔ اڈانی آسٹریلیا میں ایک کوئلہ کان، ایک پورٹ اور ایک ریل ہیڈ تیار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے۔ جب یہ بحث زوروں پر تھا کہ ہندوستانی اسٹیٹ بینک آسٹریلیا میں اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری کی گارنٹی لینے والا ہے، اسی درمیان پی ایم مودی اور اسٹیٹ بینک کی اس وقت کی سربراہ اروندھتی بھٹاچاریہ کے درمیان ہوئی میٹنگ میں اڈانی بھی موجود تھے۔ اس کے بعد سے لگاتار کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے رشتے میں کچھ تو کالا ہے، کیونکہ حکومت نے اڈانی گروپ کے مفادات کا خوب دھیان رکھا ہے۔ حالانکہ میڈیا گروپ کو قانونی نوٹس، دھمکیاں اور ایسی خبروں سے دور رہنے کے نوٹس بھیج کر ڈرانے دھمکانے کی کوششیں بھی لگاتار ہوتی رہی ہیں۔

سہارا ڈائری اسکینڈل میں تو وزیر اعظم کو سپریم کورٹ سے راحت مل گئی تھی، حالانکہ انکم ٹیکس محکمہ نے سہارا کے دفتروں میں تلاشی اور چھاپہ ماری کے دوران جو کاغذات اور دستاویزات ضبط کیے تھے ان میں گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کا عہدہ اور نام دونوں ہی صاف سامنے آیا تھا۔ کاغذات سے انکشاف ہوا تھا کہ تقریباً 50 کروڑ روپے کا لین دین ہوا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے مانا کہ صرف کسی کاغذ میں نام آ جانے سے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو قصوروار نہیں مانا جا سکتا۔ لیکن یہی دلیل دوسرے کیسوں میں نافذ نہیں کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس اپیل کو بھی خارج کر دیا تھا کہ نام سامنے آنے کے بعد کم از کم ایک غیر جانبدارانہ اور آزادانہ جانچ تو ہونی ہی چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ایم مودی جی نے وزیر اعظم دفتر میں گجرات کیڈر کے اپنے قابل اعتماد چنندہ افسروں کو بٹھایا ہے۔ اس سے ان کی یا تو عدم تحفظ کا خوف ظاہر ہوتا ہے یا پھر بھول چوک، لینی دینی پر چمکیلا غلاف چڑھانے کی منشا۔ اب تو یہ ظاہر ہے کہ پی ایم او کوئی بھی اطلاع دینے میں جھجکتا ہی نہیں بلکہ صاف انکار کر دیتا ہے۔ اس معاملے میں وہ آر ٹی آئی عرضیوں کو ہی نہیں، مرکزی اطلاعات کمشنر کے احکام کو بھی نہیں مانتا۔ پی ایم کی ڈگری کے معاملے میں تو پی ایم او نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سنٹرل انفارمیشن کمشنر اپنے اختیارات سے باہر جا کر حکم دے رہے ہیں۔ اس کے بعد پی ایم او کو انفارمیشن کمشنر کے حلقہ اختیارات سے باہر کر دیا گیا تھا۔ آخر پی ایم او میں اتنی رازداری کیوں؟ کیا ہے جو چھپایا جا رہا ہے؟

ملک آج بھی وہ منظر نہیں بھولا ہے جب لندن میں سلایا خود کا نام لکھا تقریباً 10 لاکھ روپے قیمت کا سوٹ پہنے وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر براک اوباما کے لیے راجدھانی کے حیدر آباد ہاؤس میں چائے پیش کر رہے تھے۔ وہ تاریخی لمحہ تھا۔ لیکن اس سوٹ کو ایک تحفہ بتاتے ہوئے گجرات میں نیلام کر دیا گیا، لیکن ملک کو ’پردھان سیوک‘ اور ’چوکیدار‘ کے ذریعہ اتنا مہنگا تحفہ قبول کرنے کا مقصد یا اس کے پیچھے چھپی منشا کا تذکرہ تک نہیں ہوا۔ مہنگے تحفے قبول کرنے کا رواج پی ایم تک ہی محدود نہیں تھا۔ یہ بھی خبر آئی تھی کہ گجرات کیڈر کے افسر اور سابق خزانہ سکریٹری ہسمکھ ادھیا کو دیوالی کے موقع پر سونے کے سکے ان کے سرکاری گھر پر پہنچائے گئے تھے جسے انھوں نے جلدبازی میں توشہ خانہ میں جمع کرایا۔ انھوں نے دلیل دی تھی کہ کوئی نامعلوم شخص یہ تحفے دے گیا تھا۔ لیکن بے حد سیکورٹی والے موتی باغ میں مرکزی حکومت کے ایک اہم افسر کے گھر کوئی بھی کیسے پہنچ سکتا ہے۔ تمام سیکورٹی انتظامات اور سی سی ٹی وی کیمروں کے باوجود اس کی جانچ تک نہیں کرائی گئی۔

ابھی تو بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ وزیر اعظم کی نگرانی والے او این جی سی کو کیسے گجرات کی ریاستی پٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کی مدد کرنے کے لیے مجبور کیا گیا اور کیسے ڈوبتے آئی ڈی بی آئی بینک کو مشکل دور سے نکالنے کے لیے لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کی کلائی مروڑی گئی۔ ان پر بھی سوال تو اٹھیں گے ہی، اور پھر کچا چٹھا سامنے آئے گا ہی۔

مودی حکومت کے دیرینہ منصوبوں میں جو بڑے بڑے ٹھیکے دیے گئے ہیں ان میں سرسری طور پر بھی جانچ کی جائے تو نہ جانے کیا کیا سامنے آئے گا۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل یعنی سی اے جی اشاروں اشاروں میں بہت کچھ کہہ چکا ہے، لیکن غلیچوں کے نیچے بہت کچھ اب بھی چھپا ہوا ہے۔

پی ایم او کو سیدھے رپورٹ کرنے والی سی بی آئی میں تو دلچسپ صورت حال ہے۔ گجرات کیڈر کے ایک اور افسر، اسپیشل ڈائریکٹر کے عہدہ پر تعینات راکیش استھانا کے خلاف بدعنوانی کے معاملوں کی جانچ چل رہی ہے، لیکن راکیش استھانا نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کے خلاف ہی سنٹرل وجلنس کمیشن سے شکایت کر دی ہے۔

پی ایم او کے ذریعہ سی بی آئی کے غلط استعمال کے یکے بعد دیگرے کئی معاملے سامنے آ رہے ہیں اور اب جب کہ سی بی آئی میں افسروں کے درمیان ہی گھمسان مچا ہوا ہے، تو وہ دن دور نہیں جب سارے راز ایک ایک کر کے سامنے آ جائیں۔ سوال ہے کہ ایک ایماندار اور کام دار وزیر اعظم کیوں ایک جانچ ایجنسی کی آزادی میں رخنہ پیدا کرتے ہیں؟

’ہمارے میہل بھائی‘، نیرو مودی، جتن مہتا، للت مودی اور وجے مالیا کے معاملوں میں تو آج تک وزیر اعظم کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پائے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ملک کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگا کر دوسرے ملک کی شہریت لے کر عیش کر رہے ہیں۔ لیکن رافیل معاہدہ میں جو جانکاریاں اب سامنے آ رہی ہیں وہ کیا جھوٹ اور فریب کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گی۔

انل امبانی نے وزیر اعظم کو ’کنگ آف کنگس‘ یعنی شاہوں کا شاہ یوں ہی تو نہیں کہا تھا؟ بادشاہ خوش ہوا ور چھوٹے امبانی کی جھولی میں رافیل معاہدہ کا ہزاروں کروڑ کا آفسیٹ کانٹریکٹ ڈال دیا۔ اس سے کیا ہوا اگر انل امبانی پر بینکوں کا ہزاروں کروڑ بقایہ ہے؟ راز کھلنے لگے ہیں، لیکن وزیر اعظم نہ تو رافیل معاہدہ پر منھ کھولتے ہیں اور نہ ہی ان 100 بڑے قرضداروں کے نام بتاتے ہیں جنھوں نے ملک کے قومی بینکوں کو کنگال کر دیا۔ جب انھیں سوٹ بوٹ کی حکومت والا کہا گیا تو انھوں نے اپنی سمجھ سے پلٹ وار کیا تھا کہ انھیں تو صنعت کاروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ ویسے تو تقریباً سبھی وزیر اعظم ملک کے صنعت کاروں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے رہے ہیں، لیکن ان لوگوں کی صحبت میں جتنا بے فکر پی ایم مودی نظر آتے ہیں وہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔

ہاں، یہ سچ ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو انھیں اس سب پر جواب دینے کے لیے مجبور کرے، لیکن ایک کام دار کو اپنی شبیہ کی خاطر تو کچھ بولنا ہی پڑے گا، آخر عوام کی گاڑھی کمائی کے 5000 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں ان کی شبیہ چمکانے میں۔ اور جتنا جلدی وہ یہ کر لیں گے، اتنا بہتر ہوگا۔ ورنہ کام دار اور چوکیدار کو کب لوگ شراکت دار اور داغدار کہنے لگیں، پتہ بھی نہیں چلے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔