رافیل معاہدہ:کیا اولاند کے بعداب میکرون کا بیان مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بنے گا؟

فرانس کے موجودہ صدر میکرون کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے معلوم ہے ہمارے قوانین و ضابطے بہت واضح ہیں اور یہ دو حکومتوں کے درمیان ہوا معاہدہ ہے جو ہندوستان اور فرانس کے درمیان فوجی اور دفاعی اتحاد کا حصہ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

روہت پرکاش

رافیل معاہدہ پر مودی حکومت کی مشکلیں لگاتار بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ حکومت اس مسئلے پر جواب دینے سے جتنا بچ رہی ہے اتنے ہی زیادہ سوال اس کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک تو صرف ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اس معاہدے میں انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کو شامل کرنے کے ایشو پر حکومت کو گھیر رہی تھیں لیکن اب حالات یہ بن گئے ہیں کہ بین الاقوامی اسٹیج پر بھی پی ایم مودی کے اس فیصلے کی تنقید ہو رہی ہے۔

فرانس کے صدر امینوئل میکرون نے بھی رافیل معاہدہ پر اپنی زبان کھولی ہے۔ وہ جب اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے دوران صحافیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے تو ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا حکومت ہند نے انل امبانی کے ریلائنس ڈیفنس کو معاہدہ میں شامل کرنے کے لیے فرانس حکومت یا رافیل تیار کرنے والی کمپنی دسالٹ کو مجبور کیا تھا؟ اس کے جواب میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’میں اس وقت اقتدار میں نہیں تھا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہمارے قوانین و ضابطے بہت واضح ہیں اور یہ دو حکومتوں کے درمیان ہوا معاہدہ ہے جو ہندوستان اور فرانس کے درمیان فوجی اور دفاعی اتحاد کا حصہ ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں فرانس کے سابق صدر فرینکوئس اولاند کے ذریعہ رافیل معاہدہ پر دیے گئے بیان نے ہندوستانی سیاست میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ اولاند نے کہا تھا کہ حکومت ہند نے ہی ریلائنس کے نام کی تجویز رکھی تھی اور انھیں کوئی دوسرا متبادل نہیں دیا گیا تھا۔ انھوں نے وہی پارٹنر منتخب کیا جو انھیں دیا گیا۔ ان کا یہ بیان فرانس کی نیوز ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے اپنی رپورٹ میں شائع کیا تھا۔

بہر حال، میکرون کے بیان سے اتنا تو واضح ہو گیا ہے کہ وہ رافیل معاہدہ پر ہندوستان اور فرانس کی سیاست میں جاری تنازعہ سے بچنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے صاف لفظوں میں انل امبانی کی کمپنی منتخب کرنے کے دباؤ کی تردید تو نہیں کی لیکن اشاروں اشاروں میں بہت کچھ کہہ دیا۔ سچ یہ بھی ہے کہ میکرون اس حالت میں بھی نہیں ہیں کہ وہ اولاند کے بیان کو غلط ٹھہرائیں۔ یہاں دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ میکرون نے جو بیان دیا ہے، وہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ کچھ اسی طرح کا بیان دے چکے ہیں۔

اسی سال مارچ میں صدر میکرون جب ہندوستان دورہ پر آنے والے تھے تو ’انڈیا ٹوڈے‘ کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر راج چینگپا نے ایک اسپیشل انٹرویو میں ان سے سوال کیا تھا کہ ’’رافیل معاہدہ پر ہندوستان میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت نے اس معاہدہ کے لیے زیادہ پیسے دیے جب کہ ان کے دور میں زیادہ بہتر معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے؟‘‘ اس پر ان کا جواب تھا ’’یہ معاہدہ میرے دور اقتدار میں نہیں ہواتھا، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ معاہدہ ہم دونوں کے لیے ہی فائدہ مند رہا ہے۔‘‘ میکرون اگر معاہدہ کے فائدے جانتے ہیں تو وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رافیل معاہدہ میں انل امبانی کی شراکت داری کس کی خواہش سے ہوئی۔ اب صرف اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس سوال کا جواب دینے سے کیوں پرہیز کر رہے ہیں۔

میکرون نے اس انٹرویو میں ایک اور اہم بات کہی تھی، اور وہ یہ کہ ’’اگر حکومت ہند اس معاہدے کی کچھ تفصیلات اپوزیشن اور پارلیمنٹ کے سامنے ظاہر کرنا چاہتی ہے تو میں اس میں کسی طرح کی مداخلت کرنے والا نہیں ہوں۔‘‘ لیکن اس کے برعکس مودی حکومت اس معاہدےسے متعلق بار بار کہتی رہی ہے کہ معاہدہ کی شرطوں کے مطابق وہ اس کی جانکاری شیئر نہیں کر سکتے۔

فرانس کے سابق اور موجودہ صدر کے ان بیانات کے بعد مودی حکومت کے پاس ایک ہی متبادل بچتا ہے کہ وہ اس معاہدے کو لے کر پورے حالات ملک کے سامنے واضح کریں۔ غالب نے غالباً ایسے ہی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا کہ:

بے خودی بے سبب نہیں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Sep 2018, 7:06 PM