کیا آئندہ لوک سبھا انتخابات تک پارلیمنٹ ایسے ہی ملتوی ہوتی رہے گی؟

لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی روزانہ ملتوی ہونے کے بعد کئی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا ایوان کی کارروائی اس لیے شروع ہوتی ہے کہ ملتوی کی جا سکے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

انل چمڑیا

لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 5 مارچ کے بعد بجٹ اجلاس کی کارروائی جس طرح ملتوی ہو رہی ہے اس سے یہ اندیشہ مضبوط ہو رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے پہلے تک ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کی یہی صورت حال رہ سکتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایوان ملتوی ہونے کے پیغام کے ساتھ اسپیکر اور چیئرمین ایوان کی کارروائی شروع کرتے ہیں۔ کیا اپوزیشن کے ہنگامہ کے سبب پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی اور ملتوی ہونے کے فیصلے کی حالت کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

راجیہ سبھا میں چیئرمین کے طور پر ونکیا نائیڈو نے پہلی بار 11 اگست 2017 کو ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔ 11 اگست کو راجیہ سبھا کے 243ویں سیشن کا آخری دن تھا۔ یہ سیشن 19 دنوں تک چلا تھا۔ اس کے بعد راجیہ سبھا کا 244واں سیشن ونکیا نائیڈو کی قیادت میں 15 دسمبر سے 5 جنوری کے درمیان 13 دنوں تک چلا۔ 245واں بجٹ اجلاس ہے جو کہ سب سے طویل اجلاس ہوتا ہے۔ یہ اجلاس 29 جنوری کو شروع ہوا تھا لیکن 9 فروری تک چلنے کے بعد 5 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ 5 مارچ کے بعد سے لگاتار ایوان کی کارروائی ملتوی کی حالت میں چل رہی ہے۔ راجیہ سبھا میں کارروائی کو ملتوی کرنے کے لیے راجیہ سبھا چیئرمین کے فیصلے کو تاریخی مانا جارہا ہے۔ کارروائی ملتوی ہونے سے متعلق فیصلوں کی حالت کو ان دلائل کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

5 مارچ کے بعد سے 11 بجے ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی چیئرمین کے ذریعہ 2 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی جاتی ہے۔ اس درمیان صرف 2 دن یعنی 6 مارچ اور 15 مارچ کو 2 بجے کے بعد اجلاس چلا۔ بقیہ دن 2 بجے تک کے لیے کارروائی ملتوی کی گئی اور اس کے بعد اگلے دن تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ 6 مارچ کو 2 بجے ایوان میں چیئرمین کی جگہ ڈپٹی چیئرمین ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے آئے۔ انھوں نے کارروائی میں رخنہ پیدا ہونے کی حالت دیکھ کر 3.30 بجے تک کے لیے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کر دیا۔ 15 مارچ کو بھی ڈپٹی چیئرمین نے 3 بجے تک کے لیے کارروائی ملتوی کی۔ ڈپٹی چیئرمین 2 بجے کے بعد ان دو دنوں میں لگاتار یہ کوشش کرتے رہے کہ ایوان کی کارروائی ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کے بعد دوبارہ ہو اور ایوان کی کارروائی کو چلنے کا ایک موقع مزید دیں۔

ڈپٹی چیئرمین اور چیئرمین کے ذریعہ ایوان کی کارروائی ملتوی کی حالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایوان کی کارروائی کو چلانے کی لگاتار کوشش کرنے کی سمت میں دونوں کے نظریے میں فرق ہے۔ نہ صرف دونوں کے نظریے میں فرق ہے بلکہ راجیہ سبھا میں چیئرمین کے ذریعہ کارروائی کو ملتوی کرنے کے فیصلے پر بھی نظر ڈالیں تو اس نظریہ کے فرق کو صاف صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اگر 244ویں اجلاس کے دوران چیئرمین کے طور پر ونکیا نائیڈو نے جس طرح سے اجلاس کو چلایا، وہ نظریہ 245ویں اجلاس میں 5 مارچ کے بعد بدلا ہوا نظر آتا ہے۔

5 مارچ کے بعد سے راجیہ سبھا میں 11 بجے سے کارروائی کے شروع ہونے کے بعد چیئرمین 2 بجے تک کے لیے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کر دیتے ہیں، جب کہ 12 بجے سے راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات شروع ہوتا ہے۔ چیئرمین کے طور پر ونکیا نائیڈو کی رہنمائی میں 13 دنوں تک چلے 244ویں اجلاس میں ہی صرف دو دن 11 بجے کے بعد 2 بجے تک کے لیے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کیا گیا تھا۔ پہلا 21 دسمبر 2017 کو کیا گیا۔ اس دن راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کے لیے وزیر اعظم کی موجودگی یقینی تھی اور ایوان میں گجرات انتخابات کے دوران منموہن سنگھ کے خلاف پاکستان کے ساتھ سازش کرنے کے الزام پر اراکین وضاحت دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 22 دسمبر کو جمعہ تھا اور اس دن ایوان کی کارروائی 2.30 بجے تک چلتی ہے۔ لہٰذا اس دن ایوان میں کارروائی چلانے کے لیے اتفاق رائے بنانے پر زور دیا گیا اور کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

راجیہ سبھا کی تاریخ میں یہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ صبح 11 بجے ایوان کی کارروائی شروع ہونے کے بعد اگر کارروائی کو ملتوی کرنے کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ پہلے دور میں 12 بجے تک کے لیے ملتوی کی جاتی ہے۔ 12 بجے وقفہ سوالات ہونے کی وجہ سے وہ اراکین بھی ایوان چلانے کے حق میں کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے سوال پر حکومت کا جواب ملنا یقینی ہوتا ہے۔ لوک سبھا میں وقفہ سوالات 11 بجے سے ہوتا ہے، راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کا وقت 12 بجے سے کرنے کا فیصلہ حامد انصاری نے اپنے دور میں لیا تھا۔ 16ویں لوک سبھا کے 14ویں اجلاس میں 5 مارچ سے 11 دن لوک سبھا کی کارروائی پہلے 11 بجے وقفہ سوالات کے لیے شروع ہوئی اور پھر 12 بجے کے بعد ایوان کی کارروائی پورے دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

وقفہ سوالات کو ایوان کی کارروائی میں سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 7 فروری کو صدر جمہوریہ کے خطاب پر زیادہ سے زیادہ اراکین کے بحث میں حصہ کو یقینی بنانے کے لیے جب رکن نریش اگروال نے وقفہ سوالات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تو چیئرمین ونکیا نائیڈو نے وقفہ سوالات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ وقفہ سوالات اراکین کا حق ہے۔ اس سے اراکین کو محروم کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن 5 مارچ کے بعد ایوان کی کارروائی کو ملتوی کرنے کے فیصلے کے ساتھ ایوان کی کارروائی شروع ہوئی ہے، یہ 16 مارچ 2018 کو زیادہ واضح طور پر سامنے آیا۔

16 مارچ کو ایوان میں کارروائی شروع ہونے کے بعد کسی طرح کی مخالفت اور ہنگامہ نہیں تھا۔ لیکن چیئرمین ونکیا نائیڈو نے ایوان کی کارروائی کو دن بھر کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ انھوں نے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کرنے کے فیصلے کے ساتھ کہا کہ اپوزیشن صرف پنجاب نیشنل بینک کے گھوٹالے پر بحث کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن پنجاب نیشنل بینک میں گھوٹالے پر ہی بحث کے بجائے بینکوں میں ہوئے سبھی گھوٹالوں پر بحث کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ 5 مارچ کو جب ایوان دوبارہ سجی تو ملک کا سیاسی درجہ حرارت اس شکل میں بدلا ہوا نظر آیا کہ نریندر مودی حکومت کے دور اقتدار میں 11 ہزار کروڑ سے زیادہ کا پنجاب نیشنل بینک میں ہیرا پھیری کا بڑا واقعہ سامنے آ چکا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ایوانوں کی کارروائی 5 مارچ کے بعد کارروائی ملتوی کرنے کے پیغامات دینے کے لیے شروع ہوتی ہے۔ خاص طور سے راجیہ سبھا میں تو ایوان کو چلانے کا جذبہ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ایوان کے ملتوی ہونے کے پیچھے جو کوشش دکھائی دے رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں بھی یہی صورت حال ہو سکتی ہے۔

گجرات میں اسمبلی انتخابات کے مدنظر پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس تاخیر سے بلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ گجرات میں 14 دسمبر 2017 تک دو مراحل میں ووٹنگ ہوئی تھی۔ گجرات میں اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں انتخابی کمیشن نے جب تاخیر کی تو سیاسی پارٹیوں نے اس کے لیے کمیشن کی سخت تنقید کی تھی۔ ایوان کی کارروائی سے ووٹروں کے متاثر ہونے کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ ایوان کی کارروائی سے متعلق ایک نئے طرح کا رجحان دکھائی دے رہا ہے، اس لیے ایوان کی کارروائی کو چلانے میں روایتوں سے ہٹ کر ایک الگ طریقہ لگاتار بڑھ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔