اڈانی گرین کے مفادات کے آگے بھلا مفاداتِ عامہ کی کیا بساط!... اے جے پربل

سابق سکریٹری برائے توانائی ای اے ایس سرما کے ذریعہ وزیر مالیات کو لکھے خطوط بتاتے ہیں کہ حکومت نے کس طرح اڈانی گروپ کی مدد کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

<div class="paragraphs"><p>گوتم اڈانی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

گوتم اڈانی، تصویر آئی اے این ایس

user

اے جے پربل

کیا حکومت ہند، پبلک سیکٹر کے بینکوں اور ٹیکس دہندگان کو ایسی کمپنی کو پیسے دینے چاہئیں جو بجلی کے لیے کافی اونچی شرحیں وصول کر صارفین کو لگاتار دھوکہ دے رہی ہے؟ یہ سوال حکومت ہند کے سابق توانائی سکریٹری اور پلاننگ کمیشن کے سابق توانائی مشیر ای اے ایس سرما نے اٹھایا ہے۔ رشوت خوری اور بڑھی ہوئی شرحوں کے الزامات پر بی حکومت ہند کا آفیشیل رخ یہی رہا ہے کہ یہ امریکی ریگولیٹریز اور اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے درمیان کا ’تنازعہ‘ ہے۔ سرما نے اس پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے اس الزام پر قائم ہیں کہ حکومت ہند، وزارت مالیات اور وزارت بجلی اڈانی گروپ کو ہندوستانی صارفین کو لوٹنے دینے کے معاملے میں شریک سازش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہند اس گھوٹالے میں شامل تھی اور ہندوستانی بینکوں اور ٹیکس دہندگان کے لیے اڈانی گروپ کو ’ری فائنانسنگ بحران‘ سے ابارنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کے قرضوں کی جزوی ادائیگی اگلے کچھ سالوں میں ہونی ہے۔ گروپ کو مارچ 2025 میں تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے ہیں اور اس کا بڑا حصہ اڈانی گرین کا بقایہ ہے جس پر امریکہ میں مقدمہ چل رہا ہے۔


نومبر میں امریکی محکمہ انصاف کے ذریعہ گوتم اڈانی، ان کے بھتیجے اور افسران پر دھوکہ دہی کا کیس لگائے جانے سے گروپ پر بحران کے بادل چھا گئے ہیں اور اس سے بین الاقوامی بازار سے پیسے حاصل کرنے کی اس کی صلاحیت پر بھی اثر پڑا ہے۔ کیس کے بعد فچ ریٹنگز نے کہا کہ وہ گروپ کی پورٹ یونٹ کے امکانات کو ’اسپیکولیٹو‘ یعنی قیاس پر مبنی میں بدل سکتی ہے، جبکہ موڈیز نے اڈانی گروپ کی 7 کمپنیوں کے امکانات میں ترمیم کرتے ہوئے ’نگیٹو‘ یعنی منفی کر دیا ہے۔ اڈانی ٹوٹل گیس میں برابر اور اڈانی گرین انرجی میں 19.8 فیصد حصہ داری رکھنے والی فرانسیسی توانائی کا بڑا نام ’ٹوٹل انرجی‘ نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اڈانی گروپ کے الزامات پر حالات واضح نہیں ہو جاتے، وہ گروپ میں کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔

اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں اڈانی گرین انرجی کو مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا اور اس کے بعد اڈانی انٹرپرائزیز اور اڈانی پورٹس اینڈ ایس ای زیڈ کا نمبر رہا۔ جہاں گروپ کی کمپنی کے مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 4 سیشنز میں 81 ہزار 440 کروڑ روپے کی گراوٹ آئی۔ وہیں اڈانی انٹرپرائزیز اور اڈانی پورٹس کا کیپٹلائزیشن اسی مدت میں بالترتیب 77445 کروڑ روپے اور 34735 کروڑ روپے کم ہوا۔


24 اکتوبر کو نیویارک کی ایک عدالت میں چارج شیٹ کھلنے کے 2 ہفتہ بعد سرما نے مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کو بھیجے خط میں لکھا ’’مجھے اندیشہ ہے کہ اڈانی گروپ کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمیشہ کی طرح وزارت مالیات بے بس پی ایس یو بینکوں پر گروپ کو ’ری فائنانس‘ کی سہولت دینے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ میں وزارت مالیات اور آر بی آئی دونوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس سمت میں آگے نہ بڑھیں، کیونکہ یہ بینک لاکھوں دیہی و شہری ڈپازیٹرس اور ٹیکس دہندگان کی رقم پر چلتے ہیں اور 31 مارچ 2024 تک (اڈانی) گروپ کی مجموعی 2.41 لاکھ کروڑ روپے کی قرض دینداری (ادائیگی) میں سے وہ پہلے ہی 88000 کروڑ روپے کے جوکھم میں ہیں۔‘‘ (ستمبر 2024 میں گروپ کا مجموعی قرض بڑھ کر 279300 کروڑ روپے ہو گیا۔)

12 دسمبر کو وزیر مالیات کو مخاطب ایک دیگر خط میں سرما نے کہا ’’امریکی مقدمہ کے سبب اس وقت اڈانی گروپ کو باہری ذرائع سے قرض لینے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ میں اس سلسلے میں ان نیوز رپورٹس کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ اڈانی گروپ نے اڈانی گرین انرجی لمیٹڈ (اے جی ای ایل) کے 1.1 ارب ڈالر کے قرضوں کو ری فائنانس کرنے کے لیے سرمایہ کاروں اور بینکوں کے ایک گروپ کے ساتھ بات چیت شروع کی ہے (...) قرضوں کی ادائیگی مارچ 2025 تک کی جانی ہے (...) گھریلو مالیاتی اداروں کے علاوہ گروپ نے قرض ری فائنانس کرنے کے لیے مغربی ایشیا، یوروپ اور جاپان کے سرمایہ کاروں و قرض دینے والوں سے رابطہ کیا ہے۔‘‘


اپنے خطوط میں سرما جذباتی دلیل دیتے ہیں کہ ’’پی ایس یو بینکوں کو زراعت، دیہی ترقی و چھوٹے اور مارجینل انٹرپرائزیز جیسے ترجیح والے شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وزارت مالیات اور آر بی آئی دونوں اڈانی گروپ کے معاملے میں زیادہ احتیاط برطیں گے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’این ڈی اے حکومت، اڈانی سولر انرجی کی فروخت سے جڑے سبھی ایشوز کی ایک آزاد عدالتی جانچ کرانے کی جگہ، جیسا کہ ہم میں سے کچھ نے پہلے بھی مشورہ دیا تھا، اسے بچاتے ہوئے اپنے پیر کھینچ رہی ہے اور شاید ایسا اڈانی گروپ کے اشارے پر اور گروپ کو بحران سے ابارنے کی کوششوں کے سبب کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ افسوسناک اور مفاد عامہ کے خلاف ہے۔‘‘

حالانکہ اڈانی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی بیلنس شیٹ مضبوط ہے اور 34-2033 تک ہر سال کے لیے اس کی سالانہ قرض ادائیگی ستمبر 2024 تک اس کے آپریٹنگ نقدی بہاؤ سے کم رہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گروپ آپریٹنگ کیش جنریشن کے ذریعہ اپنی قرض ادائیگی کو پورا کر سکتا ہے۔‘‘ گروپ نے دعویٰ کیا کہ ستمبر 2024 میں اس کے پاس 39 ہزار کروڑ روپے کا نقد ذخیرہ تھا، جبکہ مارچ 2023 میں یہ 22300 کروڑ روپے تھا اس کے منافع میں بہتری ہوئی ہے جیسا کہ اس کے خالص قرض اور ای بی آئی ٹی ڈی اے (سود، ٹیکس، فرسودگی اور معافی سے پہلے کی کمائی) تناسب (ستمبر 2024 میں 2.7 بمقابلہ مارچ 2023 میں 4.4) سے پتہ چلتا ہے۔


اڈانی گروپ کے مجموعی قرض کا تقریباً 41 فیصد گھریلو ذرائع سے جمع کیا گیا، جبکہ باقی 59 فیصد بین الاقوامی ذرائع سے۔ اڈانی پاور اور اڈانی ٹوٹل گیس دونوں نے اپنا سارا قرض گھریلو ذرائع سے لیا، جبکہ امبوجا سیمنٹس نے اپنا قرض خاص طور سے بین الاقوامی ذرائع سے حاصل کیا۔ سی این بی سی-ٹی وی 18 کے جائزہ کے مطابق مالی سال 24 تک اڈانی گرین کا 45 فیصد قرض گھریلو ذرائع سے آیا، جبکہ بقیہ 55 فیصد بین الاقوامی ذرائع سے۔ اڈانی انٹرپرائزیز کا 61 فیصد قرض گھریلو ذرائع سے آیا۔ اڈانی پورٹس نے اپنے قرض کا 20 فیصد گھریلو ذرائع سے حاصل کیا، جبکہ اڈانی انرجی سالیوشنز نے گھریلو قرض دینے والوں سے 25 فیصد قرض حاصل کیا۔

سرما نے پہلے بھی بتایا تھا کہ کس طرح اڈانی گرین نے ہندوستانی صارفین سے سولر انرجی کے لیے زیادہ پیسے وصولنے کی سازش تیار کی اور اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ کس طرح وزارت بجلی نے ایک ناجائز حکم جاری کر ریاستوں سے کہا کہ وہ اپنی توانائی سے متعلق ضرورتوں کا 15-10 فیصد قابل تجدید توانائی فراہم کرنے والوں سے خریدیں، بھلے ہی یہ مہنگی ہو۔ سرما کا ماننا ہے کہ اس کا مقصد اڈانی گرین کو فائدہ پہنچانا تھا۔ انھوں نے پبلک سیکٹر کی ایس ای سی آئی (سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا) پر بھی اڈانی گرین کے ساتھ قصداً 25 سالوں کے لیے طویل مدتی خرید معاہدہ کرنے کا الزام لگایا، جبکہ ایس ای سی آئی اچھی طرح جانتی تھی کہ بجلی کی شرحیں زیادہ ہیں اور ان کے وقت کے ساتھ نیچے آنے کا امکان ہے۔


سرما نے اپنے خطوط میں بتایا کہ سولر انرجی ٹیکنالوجی تیزی سے وسعت پا رہا ہے اور سولر انرجی پیدا کرنے کی لاگت ہر سال کام ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس ای سی آئی اور حکومت ہند کے لیے اڈانی گرین کے ساتھ 25 سال کی طویل مدت کے لیے بڑھی ہوئی یقینی شرحوں پر بجلی خریدنے کے لیے طویل مدتی معاہدہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ہندوستانی صارفین کی قیمت پر کارپوریٹ یونٹ کو فائدہ پہنچانے کی سازش تھی۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ایس ای سی آئی نے اڈانی گرین سے زیادہ شرح پر بجلی خریدنے پر رضامندی کیوں ظاہر کی؟ جب ایس ای سی آئی ریاستی بجلی فراہمی کمپنیوں (ڈسکام) کو بڑھی ہوئی شرحوں پر بجلی خریدنے کے لیے راضی نہیں کر سکی تو مرکزی حکومت اور اڈانی گروپ دونوں فعال ہو گئے۔ اڈانی گروپ نے جہاں 2100 کروڑ روپے کی رشوت دینے کی پیشکش کی، جیسا کہ ڈیجیٹل ثبوت کی بنیاد پر امریکی کیس میں کہا گیا ہے، اور وزارت برائے قابل تجدید توانائی اور ایس ای سی آئی نے ریاستی حکومتوں کو مجبور کرنے کے لیے ملی بھگت کی۔

سرما کہتے ہیں کہ ’’امریکہ کے سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے جو کیا ہے، قاعدے سے اسے سیبی کو کرنا چاہیے تھا؛ ایف بی آئی نے تقریباً 2 سالوں کی جانچ کے دوران جو پتہ لگایا، اس کے بعد کی جانچ یہاں سی بی آئی کو کرنی چاہیے تھی؛ سیبی اور سی بی آئی کے لیے امریکہ میں اپنے ہم منصوبوں یعنی ایس ای سی اور ایف بی آئی سے تفصیلات حاصل کرنا آسان ہونا چاہیے تھا، لیکن اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اس سمت میں کوئی کوشش کی گئی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔