سپریم کورٹ پر امت شاہ کا منحوس سایہ .. ظفر آغا

سپریم کورٹ کے 4 ججوں کی بغاوت اور پریس کانفرنس کے بعد سے نہ صرف چیف جسٹس دیپک مشرا بلکہ سپریم کورٹ سمیت پورے نظام عدلیہ پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ بات ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

لیجیے، ایک عدلیہ بچی تھی وہاں بھی قیامت ہو گئی۔ ارے عدلیہ کیوں کہیے، صرف سپریم کورٹ عدلیہ میں ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس پر لوگوں کو بھروسہ تھا۔ کچہریوں اور ہائی کورٹ کے جو حالات ہیں وہ کسی سے چھپے نہ تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کی جو عزت تھی وہ ہندوستان میں کسی ادارے کی نہیں تھی۔ پچھلے ہفتے چار سینئر موسٹ ججوں کی چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف کھلی بغاوت کے بعد اب سپریم کورٹ بھی شبہات کے گھیرے میں آ گیا۔ سب واقف ہیں کہ چار سب سے سینئر سپریم کورٹ کے ججوں نے ایک پریس کانفرنس کر کے چیف جسٹس دیپک مشرا پر یہ الزام لگایا کہ وہ سیاسی نوعیت کے انتہائی حساس معاملات ان کو نہ دے کر جونیئر ججوں کو سنوائی کے لیے بھیج رہے ہیں۔ بقول ان فاضل ججوں کے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اس لیے یہ تمام روایت کے خلاف ہے۔ بالفاظ دیگر ان ججوں نے چیف جسٹس پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ موجودہ سیاسی نظام کی مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں دو مقدمات کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ان میں ایک مقدمہ لکھنؤ کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کا تھا اور دوسرا سی بی آئی جج لویا کے مبینہ قتل کا معاملہ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ دونوں مقدمے ہیں کیا۔ لکھنؤ میڈیکل کالج معاملہ تو یہ ہے کہ اس میڈیکل کالج پر کچھ نصاب میں داخلے پر میڈیکل کاؤنسل آف انڈیا نے پابندی لگا دی تھی۔ وہ میڈیکل کالج اس معاملے میں سماعت کے لیے سپریم کورٹ چلا گیا۔ میڈیکل کالج کی جانب سے کسی شخص کے اڈیشہ ہائی کورٹ کے جج قدوسی سے فون پر اس معاملے میں گفتگو کی کہ وہ اس معاملے کو میڈیکل کالج کے حق میں سلجھوا دیں۔ جسٹس قدوسی نے اس معاملے میں پیسہ لے دے کر سپریم کورٹ سے میڈیکل کالج کے حق میں فیصلہ کروانے کی پیشکش کی۔ ظاہر ہے اس رشوت کا بڑا حصہ اس گفتگو کے مطابق سپریم کورٹ میں بھی جانا تھا۔ فون پر یہ گفتگو سی بی آئی نے ریکارڈ کر لی اور جسٹس قدوسی اس سلسلے میں گرفتار بھی ہو گئے۔ پر مشہور وکیل پرشانت بھوشن نے جسٹس چیلامیشور اور دیگر سینئر ججوں کی بنچ کے سامنے ایک درخواست دی کہ یہ معاملہ نہ تو چیف جسٹس سینی اور نہ ہی ان کا معین کیا ہوا جج سنے۔ جسٹس چیلامیشور نے اس کو کسی اور عدالت میں سنوائی کے لیے لگا دیا۔ چیف جسٹس اس پر آگ بگولہ ہو گئے اور انھوں نے فوراً یہ معاملہ سنوائی کے لیے اپنے چہیتے جونیئر جج ارون مشرا کے سامنے سنوائی کے لیے لکھوا دیا۔ اس پر سپریم کورٹ میں کافی چہ می گوئیاں ہوئیں۔ آخر چار باغی ججوں نے اس معاملے کا ذکر اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔

دوسرا معاملہ جو چار ججوں نے اٹھایا وہ جسٹس لویا کا تھا۔ دراصل جسٹس لویا سی بی آئی کے جج تھے جو سہراب الدین فیک انکاؤنٹر کی سنوائی کر رہے تھے۔ اس معاملے میں موجودہ بی جے پی صدر امت شاہ پر آنچ آ رہی تھی۔ وہ اس معاملے میں ایک بار جیل بھی جا چکے تھے اور ان کے مخالفین شاہ کو سہراب الدین فیک انکاؤنٹر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ سی بی آئی جج لویا کے سامنے سنوائی کے لیے پیش ہوا۔ سنہ 2014 میں جسٹس لویا کے سامنے جب اس معاملے کی سنوائی ہونے والی تھی تو وہ ممبئی سے ناگپور دو اور اپنے جج ساتھیوں کے ساتھ گئے۔ وہاں یکایک ’دل کا دورہ‘ پڑنے سے جسٹس لویا کا انتقال ہو گیا۔ ابھی نومبر 2017 میں دہلی کی ’کاروان‘ میگزین نے ایک اسٹوری کی جس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ سہراب الدین انکاؤنٹر کو رفع دفع کرنے کے لیے جسٹس لویا پر بے حد دباؤ تھا۔ بلکہ انھوں نے اپنی بہن سے اس معاملے میں یہاں تک کہا تھا کہ ان کو اس معاملے کو ایک سنوائی میں ختم کرنے کے لیے بہت لمبی چوڑی رشوت کی بھی پیش کش ہو رہی تھی۔ لیکن وہ کسی دباؤ میں آنے کو تیار نہیں تھے۔ بس اسی دوران یکایک جسٹس لویا کی موت ہو گئی جو ’کاروان‘ اسٹوری کے مطابق موت نہیں بلکہ قتل تھا۔

یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں اس اسٹوری کے بعد سپریم کورٹ میں سنوائی کے لیے پیش ہوا۔ چیف جسٹس نے اس معاملے کی سنوائی بھی اپنے چہیتے جج ارون مشرا کو سونپ دی۔ چار باغی ججوں نے اس معاملے کو بھی اپنی پریس کانفرنس میں اٹھایا اور کہا کہ ایسے حساس معاملات سینئر ججوں کے پاس آنے چاہئیں نہ کہ جونیئر کسی مخصوص جج کو سونپیں جائیں۔

بہر کیف، اس بغاوت اور پریس کانفرنس کے بعد سے نہ صرف چیف جسٹس دیپک مشرا بلکہ سپریم کورٹ سمیت پورے نظام عدلیہ پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس معاملے کا جلد از جلد حل نکلنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور چار باغی ججوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش جاری ہے۔ لیکن ابھی تک معاملہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

لیکن اس پوری بحث میں جو بات صاف ہے وہ یہ کہ سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جس کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور یہ معاملہ وہ ہے جس کے سلسلے میں بی جے پی صدر اور نریندر مودی کے یارِ غار امت شاہ جیل جا چکے ہیں۔ یوں تو عدالتوں سے مودی جی کی طرح اس معاملے میں امت شاہ بری ہو چکے ہیں، لیکن سہراب الدین ایک بھوت کی شکل میں آج بھی امت شاہ کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ میں ان دنوں جو مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ سہراب الدین اور امت شاہ معاملہ ہے جس نے ہندوستان کی پوری نظامِ عدلیہ پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے، تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔ بالفاظ دیگر حالیہ سپریم کورٹ بحران کا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو وہ بی جے پی صدر امت شاہ ہیں۔ ابھی کچھ اور نہیں اس سلسلے میں محض اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ بچائے امت شاہ سے جن کا منحوس سایہ سپریم کورٹ پر بھی پڑ گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔