کرنا ٹک کو لے کر بی جے پی میں زبردست گھبراہٹ

کل کرناٹک کے باشندے ووٹ کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار ریاستی حکومت کے لئے ضرور کررہے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اس ووٹ سے ریاست نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کا انتخاب کر رہے ہوں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گزشتہ 45دنوں میں بی جے پی نے کرناٹک میں جس انداز سے انتخابی مہم چلائی ہے اور اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے اس سے کرناٹک انتخابات کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے کسی سیاسی پنڈت ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرناٹک ریاست اتر پردیش اور مغربی بنگال کی طرح زیادہ بڑی تو نہیں ہے مگر اس ریاست میں انتخابات کے اوقات نے ان کو بہت اہم بنا دیا ہے۔ انتخابات کے اوقات کے سامنے یہ بات بے معنی ہو جاتی ہے کہ یہاں کانگریس بر سر اقتدار ہے اور یہ وہ جنوبی ریاست ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں رہ چکی ہے، اس کو بی جے پی کے لئے جنوب کا دروازہ کہا جاتا تھا۔ بی جے پی نے اس ریاست پر قبضہ جمانے کے لئے وزیر اعظم سمیت پارٹی صدر، آدھی سے زیادہ کابینہ ، سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کو کرناٹک کے میدان میں دراصل کرناٹک جیتنے کے لئے نہیں اتارا بلکہ ملک میں اپنے اقتدارکو بچانے کے لئے انتخابی مہم میں یہ جنون دکھایا ہے۔ بی جے پی اس لئے جنون کی حد تک محنت نہیں کر رہی کہ اس کو کانگریس سے ایک اور ریاست چھیننی ہے یا جنوب کی کم سے کم ایک ریاست پر قبضہ جمانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی گھبرائی ہوئی ہے اور اسے اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ کرناٹک گیا تو مرکز بھی گیا۔

جب کرناٹک انتخابات کے اوقات کی بات ہو رہی ہے تو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ کرناٹک انتخابات کے چند ماہ بعد تین اہم ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں اور وہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہے ۔ اس لئے اگر کرناٹک میں کانگریس دوبارہ اقتدار میں آ گئی تو کانگریس کارکنان میں تو جوش پیدا ہو گا ہی ساتھ میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کے خلاف جو ناراضگی ہے اس کو آواز مل جائے گی اور مدھیہ پردیش، راجستھان، اور چھتیس گڑھ ریاستیں بی جے پی سے دور جا سکتی ہیں ۔ اگر کرناٹک نتائج کی وجہ سے بی جے پی سےتین میں سے دو ریاستیں بھی چلی جاتی ہیں تو اس کے پانچ ماہ بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کی پریشانیاں بہت زیادہ بڑھ سکتی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ2004 کی یاد تازہ ہو جائے جب انڈیا شائننگ کے دعوؤں کے با وجود واجپئی حکومت اقتدار سے بے دخل کر دی گئی تھی اور کانگریس کی قیادت میں یو پی اے اقتدار میں ا ٓ گئی تھی۔

ان نزاکتوں اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی بی جے پی کا چہرا وزیر اعظم نے اپنی انتخابی ریلیوں کی تعداد 15سے بڑھاکر21 کر دیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ہی نہیں بلکہ پارٹی صدر امت شاہ بھی دو مہینے سے کرناٹک میں ڈیرا ڈالے ہو ئے ہیں اور اپنے اس ڈیرے کے دوران وہ مٹھ مٹھ گھوم کر سنتوں اور مہنتوں کو رجھانے کی کوشش کرتے پھرے ۔ امت شاہ نے27 ریلیاں ،26 روڈ شو اور پچس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہے۔ اتر پردیش ریاست کرناٹک سے دو گنی بڑی ریاست ہے اور یہا ں403 اسمبلی اور80 پارلیمانی سیٹیں ہیں جبکہ کرناٹک میں224 اسمبلی سیٹیں اور 28پارلیمانی سیٹیں ہیں۔ اتر پردیش میں نریندر مودی نے نوٹ بندی کے تازہ اثر کے باوجود اس وقت صرف24 ریلیاں کی تھیں جبکہ انہوں نے کرناٹک میں 21ریلیاں کیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی میں کتنی گھبراہٹ ہے۔

بی جے پی کی گھبراہٹ فطری ہے کیونکہ ایک جانب کرناٹک کے لوگوں میں کانگریس حکومت کے خلاف زیادہ ناراضگی نہیں ہے اور کانگریس کے وزیر اعلی کا امیدوار زیادہ مقبول اور متحرک ہیں دوسری جانب بی جے پی کو یہ احساس ہے کہ اگر اس وقت دیوار میں سے ایک اینٹ بھی نکلی تو آنے والے انتخابات سے قبل پوری دیوار ڈھ جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 May 2018, 2:00 PM