معصوموں کی اموات کے لئے صرف یوگی ذمہ دار — حمرا قریشی

تصویر:نیشنل ہیرالڈ
تصویر:نیشنل ہیرالڈ
user

حمرا قریشی

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کو خو د فوراً اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جانا چاہئے۔ اگر وہ خود استعفیٰ نہیں دیتے تو پھر ان پر اس طرح کا دباؤ پڑنا چاہیے کہ وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں۔ہم کو یہ بات قطعاً نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے ہفتے 6دنوں کے اندر بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ساٹھ سے زیادہ بچوں کی اموات ہوئیں اور یہ میڈیکل کالج خود وزیر اعلی یوگی کے حلقہ انتخاب گو رکھپور میں ہے۔یہ وہ حلقہ انتخاب ہے جس کی نمائندگی گزشتہ بیس برس سے یوگی جی لوک سبھا میں کرتے چلے آرہے ہیں۔ پھر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ انسیفلائٹس جیسا مہلک مرض گو رکھپور میں راتوں رات تونہیں پھیلا ۔ در اصل مشرقی اتر پردیش کے اضلاع اور بالخصوص گو رکھپو ر سے سیکڑوں لوگوں کی اس مر ض میں ہونے والی اموات کی خبر یں برسوں سے آرہی ہیں اور میراخیال ہے کہ اس طرح کی پہلی خبر 1978میں آئی تھی۔

آخر یوگی ادتیہ ناتھ اتنے برسوں سے اپنے حلقہ انتخاب کی لئے کیا کر رہے تھے۔ پھر اتر پردیش کا وزیر اعلی بننے کے بعد اس سلسلے میں انہوں نے کیا اقدامات لئے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے سوائے سیاسی چالوں کے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔بلکہ یہ دیکھ کر سخت غصہ آتا ہے کہ اس سلسلے میں یوگی حکومت طرح طرح کے بہانے بنارہی ہے۔ اگر وہ بچے یکا یک آکسیجن کی کمی سے نہیں مرے تو پھر ان کی موت ہو ئی کیسے! ایک کےبعد ایک تھوڑے سے عرصے کے اند ر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کی اموات ہوتی چلیں گئیں اور پورے اسپتال کا عملہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہا۔

اور دوسری جانب یوگی سرکار کی طرف سے لوگ بے غیرتی اور بے شرمی سے ٹی وی پر طرح طرح کی بیان بازی کرتے رہے۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب وزیر صحت سدھارتھ ناتھ سنگھ کو ایک موقع پر بے شرمی سے ٹی وی پر مسکراتے دیکھا گیا۔ یہ بے غیرتی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ معصوم بچوں کی امو ات پر گفتگو کے درمیان کیاکسی کو مسکرانا زیب دیتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے بچوں کی اموات کو سہی ٹھہرانے کی کوشش بھی کی اور اس سلسلے میں انھوں نے اس مرض سے مرنے والوں کی ایک لمبی فہرست بھی پڑھ کر سنائی۔ دراصل اس طرح وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ اگر بچے مر گئے تو کیا ہوا، یہ تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس سلسلے میں اترپردیش حکومت کی ترجمان انیلا سنگھ کا رویہ بھی انتہائی افسوسناک تھا۔ وہ ٹی وی پر غرور کی مکمل تصویر نظر آ رہی تھیں۔ چہرے پر ندامت کے کوئی آثار کبھی دکھائی نہیں دیئے۔

اور تو اور، میڈیکل کالج کے سربراہ راجیو مترا اور بچوں کے وارڈ کے انچارج ڈاکٹر کفیل احمد خان کے سر پر سارے الزامات تھوپ کر دونوں کو معطل کر دیا گیا۔ لیکن اس با ت کی وضاحت نہیں کی گئی کہ میڈیکل کالج کی جانب سے گھڑی گھڑی حکومت کو آکسیجن پیمنٹ کا بقایہ ادا کرنے کی یاد دہانی کے باوجود آکسیجن سپلائی کیوں بند ہو گئی۔ کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ افسران اور سیاستدانوں کےدرمیان کوئی آپسی سانٹھ گانٹھ ہے؟ کیا کہیں مودی سرکار یوگی سرکار اور امت شاہ کے درمیان بھی کچھ سانٹھ گانٹھ ہے؟ اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ یوگی سرکار کی حمایت میں سب سے پہلا بیان کسی اور نے نہیں بلکہ امت شاہ نے خود دیا۔ کیا ہم بے وقوف ہیں کہ بے کار حیلے حوالوں کے بہکاوے میں آ جائیں گے جیسے کہ امت شاہ نے دیے ہیں۔ کیا محض دو ڈاکٹروں کو معطل کرنے سے سارا معاملہ حل ہو جائے گا! ارے پوری ریاست میں کرپشن کا راج ہے اور وہاں بس دو لوگ معطل کر دیے گئے اور بات بن گئی۔ کیا یوگی سرکار کا کوئی افسر یا بابو اس شمشان یا قبرستان میں گئے جہاں ان معصوم بچوں کے والدین اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے! نہیں بالکل نہیں !

بات صرف اتنی ہے کہ یوگی حکومت ان بچوں کی اموات کی ذمہ دار ہے، اس کے باوجود طرح طرح کے حیلے حوالے پیش کیے جا رہے ہیں۔ یوگی کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے بچ نکلیں محض یہ کہہ کر کہ انکوائری تو ہو رہی ہے۔ میں یہاں صاف عرض کر دوں کہ مجھے لفظ انکوائری سے ڈر لگتا ہے کیونکہ ہر انکوائری میں حقائق کو چھپانے کا کام زیادہ ہوتا ہے اور آخر میں انکوائری کے بعد کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس تمام ہنگامے کے درمیان یوگی نے مذہب کی سیاست بھی شروع کر دی۔ حد تو یہ ہے کہ صوبہ کی پولس کو پولس لائن اور تھانوں کے اندر جنم اشٹمی منانے کی اجازت دے دی ۔ حکومت اتر پردیش نے اس طرح ان تمام جمہوری اور سیکولر روایت کو بالائے طاق رکھ دیا جس کے تحت لوگوں کے عقائد ان کے ذاتی معاملات ہوتے ہیں، عوامی نہیں۔

پھر یوگی آخر ٹھہرے یوگی! بھلا وہ مسلمانوں کو یوں ہی کیسے چھوڑ دے۔ کچھ نہیں تو حکومت اتر پردیش کی جانب سے یہ حکم صادر ہو گیا کہ تمام مدارس نہ صرف یوم آزادی کی تقریب منائیں بلکہ اس کی ویڈیوگرافی کروا کر بطور ثبوت حکومت کو پیش بھی کریں۔ ارے بھائی کیا مدارس والے کہیں مریخ سے آئے ہیں، کیا وہ ہندوستانی نہیں ہیں۔

کیا یوگی نے اس قسم کا حکم صوبے کے آشرموں اور آر ایس ایس کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکولوں پر صادر کیا! اگر نہیں تو پھر محض مسلم اداروں پر ایسے حکم کیوں صادر کیے گئے! کیا یوگی اور ان کی حکومت کو مسلمانوں کی اس ملک کے تئیں وفاداری پر بھروسہ نہیں ہے! کیا یوگی فرقہ پرست سیاست کھیلنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو یہ بھی یاد نہیں رہ گیا کہ سات دہائی قبل ہندوستانی مسلمانوں نے مجموعی طور پر اس ملک میں وفاداری کا ثبوت اس طرح دیا تھا کہ انھوں نے پاکستان کے بجائے ہندوستان کو اپنا وطن العزیز چنا تھا۔ حالانکہ وہ چاہتے تو ادھر جا سکتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جی ہاں، وہ ہندوستان کو اپنا ملک تسلیم کرتے تھے اور یہیں رہ گئے کیونکہ یہ ان کا اپنا ہندوستان تھا اور آج بھی ہے۔

یوگی جی یاد رکھیے، مسلمانوں کی اس ملک سے وفاداری کوئی آج کی بات نہیں بلکہ صدیوں پرانا عہد ہے۔ آپ ان باتوں کو چھوڑیے، بہتر یہی ہوگا کہ گورکھپور معاملے میں فوراً استعفیٰ دیجیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Aug 2017, 11:22 AM