کسان تحریک کا ایک سال: آئیے نظر ڈالتے ہیں کسانوں کی جدوجہد پر اور جانتے ہیں اب تک کیا کیا ہوا

کسانوں تحریک کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، ویسے تو تحریک اسی دن شروع ہو گیا تھا جب حکومت نے تپتی گرمی میں تین زرعی قوانین کو منظوری دے دی تھی، آئیے آپ کو بتاتے ہیں اس تحریک کے دوران اب تک کیا ہوا...

کسان تحریک / UNI
کسان تحریک / UNI
user

تسلیم خان

وہ ایسی ہی شروعاتی سردیوں کے دن تھے۔ تقریباً دو ماہ سے کسان انت ینوں زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے تھے، لیکن پارلیمانی اقدار کو طاق پر رکھ کر راجیہ سبھا سے ان قوانین کو پاس کروانے والی مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت کان-آنکھ بند کر کے اَن داتاؤں پر ظلم ڈھا رہی تھی۔ آخر سن بھی کیسے لیتی حکومت کسانوں کی بات، کیونکہ اس نے تو یہ قانون بنانے سے پہلے کسانوں سے پوچھنا تک ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اس کا مقصد تو (جیسا کہ کسانوں کا الزام تھا، جو کچھ حد تک صحیح بھی تھا) ان قوانین کے ذریعہ ملک کی کھیتی کسانی کو کارپوریٹ کے ہاتھوں میں دینا تھا۔ لیکن آئین کے مطابق جمہوری طریقوں سے اپنے مطالبات کو لے کر پرامن احتجاج کرنے والے کسانوں کے آگے متکبر حکومت کو جھکنا ہی پڑا، اور بھلے ہی دکھاوٹی بھرے من اور اصلیت میں سیاسی داؤ کے طور پر وزیر اعظم نے ان قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا۔

اب کسانوں کی تحریک کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ ایک سال تو اس تاریخ سے ہے جب کسانوں نے دہلی کی دہلیزوں پرڈیرا ڈال دیا اور جدوجہد کا بگل بجا دیا۔ ویسے تو ان کی تحریک اسی دن شروع ہو گئی تھی جب حکومت نے تپتی ہوئی گرمی کے درمیان تین زرعی قوانین کو منظوری دے دی تھی۔ چلیے آپ کو بتاتے ہیں کہ کب-کب اس تحریک کے دوران کیا-کیا ہوا۔


گزشتہ سال یعنی 2020 میں جب ملک کورونا لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہا تھا، لاکھوں مزدور سروں پر بوجھا اٹھائے، معصوم بچوں کا ہاتھ تھامے، پیدل اپنے گاؤں کو لوٹ رہے تھے، اسی دوران 5 جون کو مرکز کی مودی حکومت نے تین زرعی قوانین کو منظوری دے دی۔ اس کی اطلاع سامنے آنے پر کسانوں نے احتجاج شروع کیا، لیکن چونکہ ابھی اس پر پارلیمنٹ کی مہر باقی تھی، تو کسانوں کے احتجاج میں شدت نہیں تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ان قوانین کی تنقید کی، اور انھیں بحران سے نبرد آزما زرعی شعبہ اور کسانوں و زرعی مزدوروں کے لیے موت کا وارنٹ قرار دیا۔ لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ 14 ستمبر 2020 کو حکومت ان قوانین کو لے کر پارلیمنٹ میں آرڈیننس لے کر آ گئی۔ چونکہ لوک سبھا میں حکومت کے پاس واضح اکثریت ہے تو اس آرڈیننس کو لوک سبھا نے 17 ستمبر کو منظوری دے دی۔ لیکن ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی منظوری بھی ضروری تھی، جہاں تعداد کے معاملے میں حکومت کمزور تھی۔

لوک سبھا سے پاس ہونے کے تین دن بعد 20 ستمبر کو اس آرڈیننس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ اسے پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی گزارش کی گئی۔ اس میں ترامیم کے مشورے بھی دیے گئے، لیکن حکومت کسی بھی قیمت پر اسے پاس کرانے پر آمادہ تھی۔ حکومت کی منشا دیکھ کر اپوزیشن نے اس پر ووٹوں کی تقسیم کرانے، یعنی ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ لیکن راجیہ سبھا میں چیئرمین کی کرسی پر بیٹھے سابق صحافی اور نائب چیئرمین ہریونش نارائن سنگھ نے کسی کی نہیں سنی۔ انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ ہی حکومت کی ساتھی شرومنی اکالی دل کے مطالبہ کو بھی مسترد کر دیا۔ اپوزیشن کی زبردست مخالفت اور اعتراض کے باوجود انھوں نے ان بلوں کو صوتی ووٹوں سے پاس ہونا قرار دے دیا۔


پہلے سے ہی ان قوانین کی مخالفت کر رہے کسان اس واقعہ سے مشتعل ہو گئے۔ انھوں نے 24 ستمبر 2020 کو پنجاب میں تین دن کے لیے ’ریل روکو تحریک‘ کا اعلان کر دیا۔ اس کے اگلے ہی دن یعنی 25 ستمبر کو آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈنیشن کمیٹی (اے آئی کے ایس سی سی) نے ملک بھر کے کسانوں سے ان قوانین کی مخالفت کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں کسان ان قوانین کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

کسانوں کی بڑھتی ناراضگی اور مرکزی حکومت کے ضدی رویہ کو دیکھتے ہوئے پنجاب کی سیاسی پارٹی شرومنی اکالی دل کو اپنی سیاسی زمین کھسکتی نظر آنے لگی۔ صرف ڈیڑھ سال بعد ہونے واے اسمبلی انتخاب میں اپنی کشتی ڈوبتی دیکھ کر اکالی دل نے 26 ستمبر 2020 کو مرکزی حکومت سے حمایت واپس لینے کا اعلان کر دیا اور این ڈی اے سے اپنا بہت پرانا رشتہ توڑ لیا۔ لیکن تب تک پنجاب، ہریانہ، راجستھان، اتر پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ سمیت دیگر ریاستوں کے کسانوں کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اکالی دل کا این ڈی اے سے الگ ہونا انھیں پسند نہیں آیا اور انھوں نے اپنی تحریک کو دھار دینا شروع کر دیا۔ اسی درمیان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ان بلوں کو صدر جمہوریہ نے منظوری دے دی اور گزٹ آف انڈیا میں درج ہونے کے ساتھ ہی یہ تینوں بل قانون بن گئے۔


اس دوران کسانوں کا ریل روکو، دھرنا مظاہرہ وغیرہ پورے ملک میں جاری رہا۔ اس سب کے باوجود مرکز کی مودی حکومت کا تکبر ختم نہیں ہوا۔ اس سے خفا کسانوں نے 25 نومبر 2020 کو ’دہلی چلو‘ کا نعرہ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں-لاکھں کسان ٹریکٹر ٹرالیوں، پیدل، اور دیگر گاڑیوں سے دہلی کی طرف کوچ کر گئے۔ لیکن کووڈ ضابطوں کا حوالہ دے کر دہلی پولیس نے انھیں دہلی آنے کی اجازت نہیں دی۔ اجازت نہ ہونے کے باوجود پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہریانہ-دہلی سرحد پہنچنے لگے تھے۔ اِدھر مغربی اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے کسان بھی یو پی-دہلی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کسان بھی ہریانہ-دہلی کے دوسرے بارڈر کے قریب آ چکے تھے۔

کسانوں کے جتھوں میں ہجوم دیکھ کر دہلی دربار کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے اور متکبر حکومت نے پرامن انداز میں اپنی بات مرکزی حکومت کے سامنے رکھنے کے لیے دہلی پہنچ رہے کسانوں پر ظلم برپا کرنے کے لیے ہریانہ کی بی جے پی حکومت کو کھلی چھوٹ دے دی۔


26 نومبر کا وہ دن، جب کھلے علاقوں میں سردی بڑھ چکی تھی، ہریانہ حکومت نے انبالہ کے نزدیک کسانوں پر ظلم کا آغاز کیا۔ لاٹھی برسنی شروع ہو گئیں۔ ان پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے، آبی توپوں سے ان کے حوصلے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کسان ہمت نہیں ہارے۔ دہلی پولیس نے سرحدوں پر پہرا بٹھا دیا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے واضح حکم تھا کہ کسی قیمت پر ان کسانوں کو دہلی میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن کسان بھی پرعزم تھے، انھوں نے دہلی کی دہلیزوں پر ڈیرا ڈال دیا۔ نارتھ بلاک میں ہنگامہ مچ گیا۔ کسانوں پر ظلم کی تصویریں اور ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے لگیں۔ بزرگ کسانوں پر لاٹھی چلاتے پولیس والوں کی خوفناک تصویریں دیکھ کر پورا ملک حیران رہ گیا۔ ملک تکبر میں ڈوبے ایک تاناشاہ کا کرخت چہرہ دیکھ رہا تھا۔

کسان تحریک کو ایک شکل مل گئی تھی۔ کسان ہلنے کو تیار نہیں تھے۔ اقتدار کے گلیاروں میں بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ اسی درمیان 28 نومبر کو وزیر داخلہ امت شاہ نے کسانوں کو بات چیت کی دعوت دی، لیکن شرط رکھ دی کہ پہلے کسان سرحد چھوڑے اور دہلی کے نزدیک براڑی کے ایک میدان میں چلے جائیں۔ کسانوں نے اس پیش کش کو واضح لفظوں میں مسترد کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں کسان دہلی-ہریانہ سرحد کے سنگھو بارڈر پر ٹینٹ لگا چکے تھے۔ کسانوں کے کھانے پینے کے لیے لنگر شروع ہو گیا تھا۔ لیکن یہ عوامی لنگر تھے جس میں ہر بھوکے کو کھانا کھلایا جا رہا تھا۔


ایک ہفتہ گزر گیا۔ حکومت نے پھر بات چیت کی پیشکش کی۔ 3 دسمبر کو کسانوں کے نمائندوں کے ساتھ حکومت کی پہلی بار بات چیت ہوئی، لیکن حکومت قانون واپس نہ لینے پر بضد رہی اور بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی۔ اس کے دو دن بعد 5 دسمبر کو پھر کسان لیڈران اور حکومتی نمائندے ایک میز پر بیٹھے، لیکن پھر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ حکومت کی ضد اور یکطرفہ رخ کو دیکھتے ہوئے کسانوں نے 8 دسمبر کو ’ہندوستان بند‘ کا اعلان کیا۔ دوسری ریاستوں کے کسانوں نے بھی اس تحریک میں اپنی آواز ملانی شروع کر دی۔ اس درمیان حکومت نے ایک بار پھر کسانوں کے سامنے ان قوانین میں کچھ بدلاؤ کی پیشکش رکھی، لیکن کسان قوانین کی واپسی سے کم پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔

اس درمیان بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) نے 11 دسمبر کو ان قوانین کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس سے حکومت کی بے چینی مزید بڑھ گئی اور کسان تحریک کو بدنام کرنے کا دور شروع ہو گیا۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے 13 دسمبر کو اس تحریک کے پیچھے مبینہ طور پر ’ٹکڑے-ٹکڑے گینگ‘ کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔ اس سے کسان اور ناراض ہو گئے، ساتھ ہی عوامی حمایت بھی کھل کر کسانوں کے ساتھ آ گئی۔ اس دوران کسانوں اور حکومت کے درمیان بات چیت ہوتی رہی اور نتیجہ صفر ہی رہا۔ آخر کار 30 دسمبر کو کسانوں اور حکومت کے درمیان ہوئی بات چیت میں کچھ امید کی شمع دکھائی دی۔ لیکن کسان نے ایک بار پھر صاف کر دیا کہ بغیر قوانین کی واپسی کے کوئی بھی بات آگے نہیں ہوگی۔ آخر 4 جنوری کو ہوئی کسانوں اور حکومت کی ساتویں دور کی بات چیت بھی بے نتیجہ ہی رہی۔


اس درمیان 7 جنوری کو سپریم کورٹ نے ان تینوں سیاہ زرعی قوانین کے خلاف داخل عرضی کو قبول کرتے ہوئے ان پر سماعت کرنے کے لیے حامی بھری۔ عدالت نے سماعت کے لیے 11 جنوری کی تاریخ طے کی۔ مرکز نے کسانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اسے لے کر سماعت میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو خوب ڈانٹ لگائی۔ اگلے دن یعنی 12 جنوری کو سپریم کورٹ نے ان تینوں قوانین کو نافذ کرنے پر روک لگا دی۔ ساتھ ہی چار رکنی ایک کمیٹی بنا دی جو ان قوانین پر اپنی سفارشات عدالت کے سامنے رکھتی۔ لیکن کسانوں نے اس بات پر کھلا اعتراض ظاہر کیا کہ کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے وہ تو ان تینوں قوانین کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں ان سے غیر جانبدارانہ سفارشات کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔

کسانوں نے قوانین پر روک لگائے جانے کا استقبال تو کیا لیکن قوانین کی واپسی تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان بھی کر دیا۔ اسی دوران کسانوں نے یوم جمہوریہ یعنی 26 جنوری 2021 کو انڈیا گیٹ اور لال قلعہ تک ٹریکٹر مارچ نکالنے کا بھی اعلان کیا۔ لیکن دہلی پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی اور کسان پولیس کے ذریعہ مقرر کردہ راستے پر دہلی کی سرحدوں سے باہر باہر مارچ نکالنے پر راضی ہو گئے۔ لیکن کسانوں کے ہجوم جب مارچ نکالنے کو تیار ہوئے تو کچھ شرارتی عناصر نے انھیں قصداً دہلی کی سرحدوں میں بھیج دیا۔ تین بارڈر سے کسانوں کے ٹریکٹر ٹرالی انجانے میں دہلی کی طرف کوچ کر گئے۔ لیکن دہلی پولیس نے ان کسانوں کو آئی ٹی او چوراہے پر روک لیا۔ حالانکہ کسان صرف لال قلعہ تک جانا چاہتے تھے، لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ کسانوں کو روکنے کے لیے ایک بار پھر آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے۔ اسی ہنگامہ میں بے قابو ہوئے ٹریکٹر سے گر کر ایک کسان کی موت ہو گئی۔ اُدھر کچھ شرارتی عناصر لال قلعہ پہنچ گئے اور لال قلعہ کو نقصان پہنچاتے ہوئے وہاں نشان صاحب (سکھوں کا مذہبی پرچم) لہرا دیا۔ کئی کسانوں پر اس سلسلے میں مقدمے درج ہوئے۔ اس دوران حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کی کوششیں جاری تھیں اور آخر کار 29 جنوری کی میٹنگ کے دوران حکومت نے تینوں قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے ملتوی کرنے کی تجویز رکھی اور ایک کمیٹی بنانے کی پیشکش کی۔ لیکن کسانوں نے اسے بھی مسترد کر دیا۔


اس درمیان بین الاقوامی سطح پر بھی کسان تحریک کی گونج ہو رہی تھی۔ پوپ سنگر رہانا، ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی سمیت کئی بین الاقوامی ہستیاں کسانوں کی حمایت میں سامنے آنے لگیں۔ دباؤ بڑھنے لگا تھا۔ اسی درمیان دہلی پولیس کی سائبر کرائم سیل نے ایک مبینہ ٹول کٹ کو لے کر مقدمہ درج کیا جسے ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے شیئر کیا تھا۔

پولیس کی زیادتیوں سے کسان بے حس ہو گئے تھے، وہ اپنے مطالبات کو لے کر پرعزم تھے۔ اسی دوران 6 فروری کو کسانوں نے تین گھنٹے کے لیے علامتی چکہ جام کا اعلان کیا جسے ملک بھر میں وسیع حمایت ملی۔ اس دوران مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت دہلی پولیس نے کسانوں کے دہلی میں داخلہ کو روکنے کے لیے راستوں میں کنٹیلے تار بچھا دیے، گڈھے کھودے گئے، کثیر تعداد میں پولیس تعینات کر دیے گئے، شاہراہوں کو بند کر دیا گیا۔ تبھی 8 مارچ کو ایک ایسا واقعہ ہوا جسے کسان تحریک کو ختم کرانے کے لیے سازش تصور کیا گیا۔ سنگھو بارڈر پر گولی چلنے کا واقعہ ہوا، لیکن اتفاق رہا کہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔


جولائی میں کسانوں نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے ساتھ ہی کسان پارلیمنٹ کا انعقاد کیا۔ جنتر-منتر پر ہوئے اس کسان پارلیمنٹ میں کسانوں نے اپنے مطالبات اور دلائل کو سامنے رکھا۔ 7 اگست کو ملک کی سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کسان پارلیمنٹ میں پہنچے اور کسانوں کی حمایت کی بات دہرائی۔ اس درمیان ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب غازی پور بارڈر پر محاذ سنبھالے کسان لیڈر راکیش ٹکیت کو گرفتار کرنے اور تحریک کو کچلنے کے لیے بڑی تعداد میں مسلح پولس فورس کو جمع کیا گیا تھا۔ لیکن راکیش ٹکیت کی جذباتی اپیل نے پورا رخ ہی بدل دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مغربی اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے کسان بڑی تعداد میں غازی پور بارڈر پہنچ گئے۔

5 ستمبر کو کسانوں نے مظفر نگر میں کسان مہاپنچایت کا انعقاد کیا۔ کسانوں کے اتحاد اور بی جے پی کے خلاف کھلی بغاوت دیکھ کر مرکز اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کی نیند اڑ گئی۔ اس درمیان 22 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا کہ کسانوں کو اپنی بات رکھنے اور جمہوری طریقے سے تحریک چلانے کا حق ہے، لیکن وہ راستہ بند نہیں کر سکتے۔ لیکن سب کو پتہ تھا کہ راستہ کسانوں نے نہیں بلکہ دہلی پولیس نے بند کر رکھا ہے۔ اس لیے 29 اکتوبر کو دہلی پولیس نے کسانوں کو روکنے کے لیے لگائے مختلف رخنات کو ہٹانا شروع کر دیا۔


اس دوران کئی ریاستوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اور بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا۔ اس کے علاوہ آئندہ سال کے شروع میں ہی اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں سیاسی نفع و نقصان کا اندازہ کر کے آخر کار وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 نومبر کو ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا، جس پر مرکزی کابینہ نے 25 نومبر کو مہر بھی لگا دی۔

لیکن جمہوریت زندہ ہے، اور کسان ہنوز تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی واپسی کے علاوہ ایم ایس پی یعنی فصلوں کی کم از کم قیمت کی گارنٹی کے لیے حکومت قانون بنائے، اس کے بعد ہی کسانوں کی کھیت میں واپسی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔