اللہ رے سناٹا، آواز نہیں آتی!

نریندر مودی کے زیادہ بولنے والی’خوبی‘کا خوب مذاق بھی اڑایا گیا اور مخالفین نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کچھ بولتے نہیں تھے اور موجودہ وزیر اعظم کسی کی سنتے نہیں ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی بہت بڑے مقررہیں، لسّان ہیں، اسپیکر ہیں، یعنی بہت بڑے بَکتا ہیں۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر اور اس سے قبل بھی بی جے پی کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی خاموشی پر طنز کے تیر چلائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ ملک کے اہم مسائل پر بولتے ہی نہیں۔ اس وقت نریندر مودی نے ان کا نام ’’مون موہن سنگھ‘‘ رکھ دیا تھا۔ جب الیکشن میں بی جے پی کو عدیم المثال کامیابی ملی اور وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تو بی جے پی اینڈ کمپنی کی جانب سے بار بار اس کا حوالہ دیا جاتا تھا کہ پہلی بار ہندوستان کو ایک بولنے والا وزیر اعظم ملا ہے۔ یہ بولنے والا وزیر اعظم ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر بولتا تھا اور ہر ضروری و غیر ضروری امور پر اپنی رائے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ انتہائی معمولی باتوں پر بھی ان کا ٹوئٹ آجاتا تھا۔ حالانکہ ان کی اس ’’خوبی‘‘ کا خوب مذاق بھی اڑایا گیا اور مخالفین نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کچھ بولتے نہیں تھے اور موجودہ وزیر اعظم کسی کی سنتے نہیں ہیں۔ ویسے ان دونوں وزرائے اعظم کی خاموشی اور بیان بازی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ کہاوت تو سب نے سنی ہوگی کہ ادھ جل گگری چھلکت جائے، بھری گگریا چُپّے جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے۔ اور یہ کہ بہت زیادہ بولنے والا شخص بہت جھوٹ بھی بولتا ہے۔

لیکن بہت زیادہ بولنے والوں پر کبھی ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ ان کی زبان کو لقوہ مار جاتا ہے۔ قینچی کی طرح چلنے والی زبان بولنے سے قاصر اور عاجز ہو جاتی ہے۔ آجکل کچھ یہی حالت ہمارے مہابکتا وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب کی ہو گئی ہے۔ کچھ پتا نہیں چل رہا کہ وہ ملک میں ہیں یا بدیس میں ہیں۔ حالانکہ وہ بدیس میں بھی اتنے ہی بولتے رہے ہیں جتناکہ اپنے دیس میں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ کیا بولتے رہے ہیں یا ان کی باتوں میں سچائی کا عنصر کتنا ہوتا تھا۔ آجکل ان کی زبان بھی گنگ ہے اور ان کا ٹوئٹر ہینڈل بھی چہچہانا بھول گیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان کی یہ حالت کس نے کی ہے؟ انھی لوگوں نے کی ہے جن کو وہ داووس کانفرنس میں لے گئے تھے اور انھیں میں سے ایک کو وہ ’’ہمارے میہول بھائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ داووس میں ان کے ساتھ گروپ فوٹو میں وہ نیرو مودی بھی کھڑے ہیں جنھوں نے پنجاب نیشنل بینک کو گیارہ ہزار کروڑ روپے سے زائد کا چونا لگایا ہے۔ اس ’’کار خیر‘‘ میں وہ تنہا نہیں ہیں ان کے ساتھ ان کے ماموں جان اور پردھان سیوک ’’ہمارے میہول بھائی‘‘ بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح سرکاری بینک کا پیسہ جو کہ ہمارا آپ کا پیسہ ہے، لوٹا ہے اور کس طرح اس لوٹ کھسوٹ میں بینک کے افسران بھی شامل رہے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں ہے، سب کچھ تفصیل کے ساتھ آرہا ہے۔

یہ اس چوکیدار کی ناک کی نیچے ہوا ہے جو یہ کہتا تھا کہ مجھے پردھان منتری مت بناؤ ملک کا چوکیدار بنا دو۔ میں کسی بھی ’’پنجے‘‘ کو ملکی خزانے تک پہنچنے نہیں دوں گا۔ یہ بات سچ ہے کہ انھوں نے کسی بھی ’’پنجے‘‘ کو خزانے تک نہیں پہنچنے دیا۔ لیکن انھوں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میں کسی مودی کو یا کسی میہول کو نہیں پہنچنے دوں گا۔ اسی لیے انھوں نے ان لوگوں پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں لگائی۔ بلکہ وہ ان کی عزت افزائی ہی کرتے رہے۔ کبھی عالمی کانفرنس میں اپنے ساتھ لے جا کر اور کبھی بھائی کہہ کر۔

خیر ان کی زبان کو تو لقوہ مار ہی گیا ان کے سپہ سالار امت شاہ بھی بولنا بھول گئے اور ان کے دائیں بازو ارون جیٹلی کو بھی چُپی لگ گئی۔ حالانکہ جیٹلی کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ وہ خزانے کے مالک ہیں۔ کئی دنوں کی خاموشی کے بعد کہیں سے بڑی ہلکی سی آواز آئی اور کہا گیا کہ ’’تصویر کوئی ایشو نہیں ہے بلکہ گھوٹالہ ایشو ہے‘‘۔ یہ آواز سپہ سالار کی تھی۔ لیکن اتنی باریک تھی کہ بڑی مشکل سے سمجھ میں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی پارٹی تصویروں سے کھیل کرتی رہی ہے اور بعض اوقات تو بڑا گھناونا کھیل کرتی رہی ہے۔ اسی پارٹی نے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی اپنی بہن کے ساتھ تصویر کو ان کے رنگین مزاج ہونے کے جواز کے طور پر استعمال کیا تھا۔

دوسری باریک آواز خزانہ کے مالک کی آئی جنھوں نے ساری ذمہ داری آڈیٹروں پر ڈال دی۔ ارے جیٹلی جی کیا آپ کی اور آپ کے قائد کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ آپ لوگوں کی ناک کے نیچے سارا کھیل ہوا اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آڈیٹروں نے اس گھوٹالے کو پکڑا نہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ اسی دوران جبکہ اتنا بڑا گھوٹالہ ہو رہا تھا پنجاب نیشنل بینک کو تین تین ویجلینس ایوارڈ دیے گئے۔ بہر حال جیٹلی کی آواز بھی پہلے سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ غور کرنے پر پتا چلا کہ وہ تو حکومت کی تمام تر ذمہ داری محاسبوں پر ڈال رہے ہیں۔ اس سے قبل کچھ غیر متعلق وزرا نے بھی بادل ناخواستہ بیانات دیے تھے جن میں نرملا سیتا رمن اور روی شنکر قابل ذکر ہیں۔ حالانکہ انھوں نے کوئی دم دار بات نہیں کہی۔ ان کے کہنے کا لب لباب بس یہ تھا کہ اس گھوٹالے کا آغاز سابقہ حکومت میں ہوا تھا۔ ارے بھائی سابقہ حکومت کو گئے ہوئے تو چار سال ہو گئے۔ کیا آپ کی یہ پالیسی ہے کہ سابقہ حکومت میں ہونے والا گھوٹالہ آپ نہیں پکڑیں گے۔ حالانکہ گھوٹالے کے خلاف پرچار کی بنیاد پر ہی آپ لوگ اقتدار میں آئے ہیں۔

در اصل اپنے ہی لوگوں نے مودی اینڈ کمپنی کو ایسے مقام پر لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ کا ورد کرنے والے چوکیدار کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی زبان اس خاموشی کی عادی ہو جائے اور پھر ہمیں بار بار یہی کہنا پڑے کہ اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔