این آر سی: ڈریے مت اور ٹھنڈے دماغ سے دفاع کیجیے... ظفر آغا

ہندوستان پر ہر ہندوستانی مسلمانوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی دوسرے مذہب کے فرد کا ہے، ہندوستانی مسلمان نے 1857 سے اب تک اس ملک کے لیے خون پسینہ بہایا ہے اور ہمیشہ وطن کے ساتھ تھا اور رہے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

کل رات ایک ہندی ٹی وی نیوز چینل پر وزیر داخلہ امت شاہ کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ امت شاہ بنگال کے دورے پر تھے۔ وہاں ایک انٹرویو میں گفتگو کے دوران وہ این آر سی کے معاملے پر جواب دے رہے تھے۔ اپنے چھوٹے سے انٹرویو میں امت شاہ نے جو بات کہی وہ نہ صرف چونکا دینے والی تھی بلکہ غیر قانونی اور غیر آئینی بات بھی تھی۔ جب ان سے این آر سی کے بارے میں صحافی نے کہا کہ بنگال میں اس معاملے پر خوف پھیل گیا ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ اس سلسلے میں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کی جو دلیل تھی وہ حیرت ناک تھی۔ امت شاہ نے فرمایا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ’’ایک بھی ہندو، سکھ، بدھ، جینی اور کرسچن کو باہر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ان کے بقول ان تمام مذاہب کے افراد کو کسی قسم کا کوئی ڈاکومنٹ بھی نہیں پیش کرنا ہوگا۔ بلکہ حکومت آسام کے باہر این آر سی لاگو کرنے سے قبل ایک قانون لائے گی اور اس قانون کے ذریعہ یہ واضح کر دیا جائے گا کہ ’’ہندو، سکھ، بدھ، جینی اور کرسچن پر این آر سی پر لاگو نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی ان مذاہب کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت کا حق بھی مل جائے گا!‘‘

جب ہندو، سکھ، جین، کرسچن این آر سی سے بری ہوں گے تو پھر بچا کون جس پر یہ قانون لاگو ہوگا! ظاہر ہے کہ لے دے کر ایک صرف مسلمان بچتے ہیں جن کو امت شاہ اور ان کے آقا ملک کی شہریت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر داخلہ اس طرح کھل کر مسلمانوں میں این آر سی لاگو کرنے کے نام پر دہشت پھیلا سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ان کا یہ عمل غیر قانونی ہے۔ کیونکہ ایک وزیر جب حلف لیتا ہے تو وہ آئین کے تحفظ اور بلا کسی تفریق discrimination ہر مذہب اور ذات ہر شہری کے مفاد میں کام کرنے کا حلف لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امت شاہ نے جب حلف لی تھی تو انھوں نے ہر مذہب کے ہندوستانی کے مفاد میں کام کرنے کی حلف لی تھی۔ اب وہ کھل کر ہندو، سکھ بدھ، جینی اور کرسچن مذاہب کے افراد کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں، اور اپنی بات سے واضح کر رہے ہیں کہ وہ مسلم مفاد میں کم از کم این آر سی کے تعلق سے تو کوئی کام نہیں کریں گے۔ بلکہ ان کو ان کی شہریت سے بے دخل کریں گے۔ یہ بات قانوناً جرم ہے اور یہ بات غیر آئینی بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا ہے جو ہندو، سکھ، جین، بدھ اور کرسچن پر تو لاگو نہیں ہوگا اور صرف مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستانی آئین کے مطابق ایسا کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا ہے جو مذہب کے نام پر کسی بھی ایک مذہب کے گروہ سے تفریق کرے۔ مان لیجیے کہ اگر ایسا قانون پارلیمنٹ بنا بھی دیتی ہے تو وہ سپریم کورٹ رد کر دے گا کیونکہ ایسا قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہوگا۔


امت شاہ کوئی بچے تو نہیں کہ ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ پھر وہ یہ بات علی الاعلان اپنی الیکشن میٹنگوں میں کیوں کہتے پھر رہے ہیں۔ اس کے دو مقاصد ہیں۔ اول، مسلمانوں مین خوف پیدا کرو۔ دوسرے یہ کہ بی جے پی کا چناؤ جیتنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ کسی طرح سے ایک ہندو ووٹ بینک تیار ہو جائے تو متحد ہو کر اس کے حق میں ووٹ ڈال دے۔ ظاہر ہے کہ جب اکثریت بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالے گی تو بی جے پی چناؤ جیت جائے گی۔ لیکن ہندو ووٹ بینک بنانے کے لیے یا ہندوؤں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لیے ان کو پہلے مسلمان سے ڈرانا ضروری ہے۔ اس کام کے لیے کبھی تین طلاق تو کبھی بابری مسجد اور رام مندر تو کبھی این آر سی یعنی ’مسلم گھس پیٹھ‘ کا حوا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اگلے ماہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے چناؤ ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد بنگال اسمبلی کا چناؤ ہونا ہے، اس لیے امت شاہ این آر سی کا حوا کھڑا کر رہے ہیں۔

اس لیے این آر سی کے سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ این آر سی کو پورے ملک پر لاگو کرنے کے لیے پہلے حکومت کو قانون بنانا ہوگا۔ اگر ایسا قانون بنتا ہے تو وہ غیر آئینی ہوگا جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ 15 کروڑ کی آبادی والے مسلمانوں کو آخر امت شاہ اور نریندر مودی شہریت سے نکال کر کس سمندر میں پھینک سکتے ہیں۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلم آبادی کو بے وجہ این آر سی سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ مودی حکومت این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں کو تنگ نہیں کرے گی۔ بی جے پی اور سَنگھ کی بنیاد ہی مسلم منافرت اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے ہے۔ اس لیے مسلم آبادی کو اس سلسلے میں اپنی بقا کی حکمت عملی بنا کر پہلے سے سرگرم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تمام مسلم آبادی والے محلوں میں این آر سی کے تعلق سے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔ اس کمیٹی میں وکلا پیش پیش ہونے چاہئیں اور ان کو ہر فرد کو این آر سی سے بچنے کے لیے سہی ڈاکیومنٹ تیار کرنے کی نہ صرف رائےد ینی چاہیے بلکہ وہ ڈاکومنٹ نکلوانے میں مدد بھی کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہونی چاہیے کہ جیسے ہی ایسا کوئی قانون بنتا ہے اس کو فوراً سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بھی پہلے سے تیاری رہنی چاہیے۔


ڈر کسی مرض کی دوا نہیں۔ جیسے ہر مرض کے علاج کے لیے دوا درکار ہوتی ہے، ویسے ہی ہر سیاسی مسئلہ کے حل کے لیے ایک حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ راقم الحروف کی ادنیٰ رائے میں این آر سی کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں کو اس حکمت عملی کے تحت کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اگر حکومت پھر بھی این آر سی کی آڑ میں تنگ کرتی ہے تو پرامن احتجاج کا راستہ اپنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں دھرنے، جلوس اور پرامن ستیہ گرہ ہونی چاہیے۔ لیکن یاد رکھیے کوئی بھی احتجاج مولویوں کی قیادت میں نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایس اکریں گے تو پھر ہندوؤں کی جانب سے سادھو سنت کود پڑیں گے۔ اور ہر احتجاج میں ہندوؤں اور سیکولر پارٹیوں کے افراد کو ضرور شامل کیجیے۔ کوئی بھی خالص مسلم پلیٹ فارم مسلم حق میں نہیں ہوگا۔

ہندوستان پر ہر ہندوستانی مسلمانوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی دوسرے مذہب کے فرد کا ہے۔ ہندوستانی مسلمان نے 1857 سے اب تک اس ملک کے لیے خون پسینہ بہایا ہے اور ہمیشہ وطن کے ساتھ تھا اور رہے گا۔ امت شاہ اور سَنگھ آپ کی شہریت کو ختم نہیں کر سکتے۔ اس لیے ڈریے مت۔ مگر محتاط رہیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے دفاع کے لیے تیار رہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Oct 2019, 11:21 AM
/* */