یوگی جی اب تو مسلمانوں سے نفرت کرنا چھوڑیں!

اتر پردیش کے ضمنی انتخابات یوگی آدتیہ ناتھ کہ لئے ایک سبق ہے کہ عوام کو نفرت نہیں بلکہ پیار، محبت، خوشحالی اور روزگار کی ضرورت ہے۔

تصوریر سوشل میڈیا
تصوریر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مذہب سے سیاست میں آئے زعفرانی لبادے میں ملبوس آدتیہ ناتھ کی سیاست کا اہم ستون ان کے متنازع بیانات رہےہیں ۔ یوگی آدتیہ ناتھ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جتنا نفرت سے بھرا وہ بیان دیں گے اتنے وہ اپنے ووٹرں میں مقبول ہوں گے۔ 44 سالہ آدتیہ ناتھ جب 19 مارچ کو گورکھپور کے ایک مندر میں وزیرِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد لکھنؤ پہنچے تو سب کو یہ امید تھی کہ اب وہ ایک آئینی عہدے پر ہیں اس لئے وہ متنازعہ بیانات سے پرہیز کریں گے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ یوگی کو بہت سے لوگ دیوتاؤں کے اوتار کے طور پر مانتے ہیں اکثر ایسے بیان دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔ اب یہ دیکھنے کی بات ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج اور خاص طور سے گورکھپور پارلیمانی سیٹ ہارنے کے بعد ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں ۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی نفرت کی سیاست کو آگے بڑھانے کے لئے جہاں کبھی بالی وڈ کے معروف اداکار شاہ رخ کا تقابل حافظ سعید سے کیا تو کبھی انہوں نے یہ کہا کہ مجھے ہندو ہونے پر فخر ہے میں عید نہیں مناؤں گا۔ یوگی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جوشخص اپنے مذہب کو مانتا ہے وہ اسی لئے مانتا ہے کیونکہ اس کو اپنے مذہب پر فخر ہوتا ہے اور کوئی اگرکسی کی مذہبی تقریب میں شرکت کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس مذہب کو ماننے لگا ہے۔ کچھ سماجی تقاضے ہوتے ہیں جن پر عمل کرنے سے سماج میں پیار و محبت برھتا ہے۔ آئینی عہدے پر فائز ہونے کے بعد پیار و محبت بڑھانے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں پر الزام لگایا کہ مسلمان لو جہاد کرتے ہیں اور ’اینٹی رومیو‘ دستہ اس لئے قائم کیا کیونکہ وہ یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہندو خواتین کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑنہ کرے ۔ وزیر اعلی کے لئے کوئی خاتون مسلم یا ہندو نہیں ہوتی وہ بس ریاست کی باعزت خاتون ہوتی ہیں۔ یوگی مسلمانوں سے نفرت کی اپنی ذہنیت کو کسی بھی شکل میں نہیں چھپا پاتے۔ انہوں کہا کہ مسلمانوں پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔

یوگی نے انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کے لئے کہا کہ درگاہوں کو 24گھنٹے بجلی دی جاتی ہے جبکہ مندروں میں اندھیرا رکھا جاتا ہے ۔ اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اس کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اکھلیش کوکنس اور اورنگ زیب سے موازنہ کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں مرکزی حکومت سے مسلمانوں کی آبادی روکنے کے لئے قدم اٹھانے پر بھی زور دیا تھا۔

انہوں نے گائے تحفظ کے نام پر غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کا اعلان کیا۔اپنے مخالفین کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس پی-بی ایس پی غیر قانونی مذبح چلانے والے کتوں کو ٹکٹ دیتی ہے اور غیر قانونی مذبح خانوں کو ایس پی و بی ایس پی کی حمایت حاصل ہے ۔ انہوں نے ریاست میں صبح کی آذان پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی اور متعدد مرتبہ مدارس کے خلاف وہ بیان دے چکے ہیں ۔

یوگی آدیتہ ناتھ جب سے ریاست اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں اس کے بعد سے ہمہ وقت متنازعہ بیانات کے لئے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ان کو سوچنا ہوگا کہ ملک کو نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کا کام گائے پالنا، مندر بنانا ، مندر میں آرتی پوجا کرنا اور ہندو- مسلمانوں کو لڑوانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام عوام کو خوشحال رکھنا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرانا ، مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑنا اور پیار و محبت سے پُر ماحول بنانا ہے۔ اگر حکومت لوجہاد، اینٹی رومیو دستے، مسلم مخالف بیان دینے پر توجہ دے گی تو پورے اتر پردیش میں بی جے پی کا وہی حال ہوگا جو گورکھپور اور پھول پور میں ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔