یوپی میں گھبرائی ’بی جے پی-آر ایس ایس‘ نے اوما بھارتی سے مانگی مدد، لیکن ملی مایوسی!

اوما بھارتی کا تعلق جس لودھ برادری سے ہے، وہ یوپی میں ہندو آبادی کا تقریباً 7 فیصد ہے، یہ برادری ہمیشہ بی جے پی کی حمایت کرتی رہی ہے، لیکن اس مرتبہ وہ بھگوا پارٹی میں اپنی نمائندگی سے ناخوش ہیں۔

اوما بھارتی، تصویر آئی اے این ایس
اوما بھارتی، تصویر آئی اے این ایس
user

وشو دیپک

اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کے چار مراحل مکمل ہو گئے ہیں اور تین مراحل کی ووٹنگ باقی ہے۔ اس درمیان لگاتار ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ بی جے پی کو عوام کی زبردست ناراضگی کے سبب شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس طرح کی خبروں کے درمیان گھبرائی بی جے پی اور اس کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مبینہ طور پر سابق مرکزی وزیر اوما بھارتی سے مدد کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ لوگوں کو پارٹی کے قریب لانے میں اہم کردار نبھائیں۔ حالانکہ نیشنل ہیرالڈ کو اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اوما بھارتی نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شعلہ بیان ہندوتوا لیڈر اوما بھارتی نے صحت کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابی مہم سے دور رہنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس لیڈر ارون کمار کو چوتھے مرحلے کی پولنگ سے پہلے ہی جالون (یوپی) میں اوما بھارتی سے ملاقات کرنے اور بی جے پی کے لیے خاکہ تیار کرنے کی درخواست کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اتر پردیش کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اوما بھارتی نے اس معاملے میں پارٹی کی مدد کرنے سے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایسا انھوں نے اس لیے کیا کیونکہ وہ ذلت کو نہیں بھولی ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس سے ان کے حامیوں کے درمیان غلط پیغام گیا ہے۔ یہ حامی لودھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور بندیل کھنڈ اور اودھ کے علاقے میں بکھرے ہوئے سخت گیر ہندوتوا کے حامی ہیں۔‘‘


اتر پردیش میں ہوئی نام نہاد ترقی کے بارے میں جو لوگ خبر رکھتے ہیں انھوں نے قومی آواز کو بتایا کہ ’’زمین پر تبدیلی کو محسوس کرنے کے بعد آر ایس ایس اپنے سیاسی وِنگ بی جے پی کو بچانے کے لیے سرگرم ہوا ہے۔‘‘

ارون کمار، جنھیں گزشتہ سال نظریاتی مینٹر اور سیاسی وجود کے درمیان کوآرڈنیشن کے لیے مقرر کیا گیا تھا، انھیں حالات کے مطابق بہتر قدم اٹھانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ پی ایم مودی کو اتر پردیش میں مزید ریلیاں کرنی چاہئیں۔ اندرونی ذرائع سے موصول ہو رہی اطلاعات کے مطابق یوپی اسمبلی انتخاب کو بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے قبل ’سیمی فائنل‘ کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔ اگر پارٹی سب سے اہم ریاست سے محروم ہو جاتی ہے تو ان کے لیے 2024 میں دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہو جائے گا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اوما بھارتی کا تعلق جس لودھ برادری سے ہے، وہ اتر پردیش میں ہندو آبادی کا تقریباً 7 فیصد ہے۔ لودھ برادری نے ہمیشہ بی جے پی کے لیے ہی ووٹ کیا، لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ وہ زعفرانی پارٹی میں اپنی نمائندگی سے ناخوش ہیں۔ اس وجہ سے وہ سماجوادی پارٹی کی قیادت والے اتحاد کو اپنی حمایت دے سکتے ہیں۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ شعلہ بیان ہندوتوا لیڈر اوما بھارتی ایودھیا تحریک کا مشہور خاتون چہرہ ہیں جنھوں نے 1992 میں بابری مسجد انہدام کو انجام تک پہنچایا تھا۔ اپنی سخت گیر شبیہ سے انھوں نے مدھیہ پردیش کے بندیل کھنڈ علاقے میں بھی برادری کے اندر اثر و رسوخ حاصل کیا ہے۔ بھگوا پہننے والی اور سادھوی کہی جانے والی اوما بھارتی 2003 میں مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت کی قائد بنیں اور 15 سالہ کانگریس حکومت کو اقتدار سے بے دخل کیا۔


ذرائع کے مطابق اتر پردیش میں ووٹنگ کے تین مراحل کے بعد ہی آر ایس ایس قیادت نے غور و فکر کے بعد نقصان کی تلافی کے لیے ایک نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس حکمت عملی میں شامل اہم نکات اس طرح تھے:

  • بی جے پی اوما بھارتی جیسے پرانے پارٹی کیڈر لیڈران تک پہنچے گی۔

  • مختلف ذات کے لیڈروں، سنتوں، اکھاڑوں اور مذہبی اداروں سے بی جے پی کے حق میں اقدام کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

  • وزیر اعظم مودی اتر پردیش کو زیادہ وقت دیں گے جس کی شروعات وارانسی سے ہوگی۔

  • بی جے پی لیڈران آئندہ مراحل کے لیے انتخابی تشہیر میں آوارہ مویشیوں کے خطرات سے بہتر انداز میں نمٹنے کی بات کریں گے۔

قابل ذکر ہے کہ اوما بھارتی کے ساتھ ساتھ بھگوا پارٹی کے کئی پرانے چہرے اس وقت پارٹی سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں ونے کٹیار بھی ہیں جو اب تک بی جے پی کے لیے میدان میں نہیں اترے ہیں۔ اوما بھارتی کی طرح ونے کٹیار کا تعلق بھی او بی سی زمرہ سے ہے اور وہ ایودھیا تحریک کے سب سے زیادہ سخت گیر چہروں میں سے ایک ہیں۔ ان جیسے لیڈروں کا بی جے پی سے دور رہنا نقصاندہ ثابت ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔


آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی حال ہی میں کیڈروں اور بی جے پی لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی ہے۔ میٹنگ میں موجود لوگوں کے مطابق بھاگوت نے اتر پردیش کی صورتحال پر فکر مندی ظاہر کی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ 2 مارچ سے وارانسی میں ہونے والا پی ایم مودی کا سہ روزہ قیام دراصل آر ایس ایس کی میٹنگ کے بعد شروع ہوئی بی جے پی-آر ایس ایس کیڈر کو متحرک کرنے کی آخری کوشش ہے۔ مودی کا وارانسی میں سہ روزہ قیام ریاست میں چھٹے اور ساتویں مراحل کی پولنگ کے درمیان ہوگا۔ بی جے پی حامیوں کے مطابق پی ایم مودی کا یہ تین روزہ قیام بہت اہم ہے، اور یہ باقی مراحل میں پارٹی کی کارکردگی کا رخ بدل دے گا۔ قابل ذکر ہے کہ آخری دو مراحل میں مشرقی اتر پردیش کی کل 111 سیٹوں پر پولنگ ہوگی۔

لکھنؤ کے ایک سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ’’اب تک کے ماحول کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دو مراحل کے مقابلے بی جے پی نے تیسرے مرحلہ میں تھوڑا فائدہ اٹھایا ہے، لیکن گزشتہ دو مراحل میں پیدا فرق بہت زیادہ ہے۔ بھگوا پارٹی سے جڑے پالیسی ساز بھی ہنوز نتائج کے بارے میں پراعتماد نہیں ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */