زانیوں کو سزائے موت تو ملنی ہی چاہیے!

دو تین روز قبل دہلی میں ایک ایسی عورت پکڑی گئی جس نے اپنی کم عمرعزیزہ کو مشروب میں شراب پلا کراپنے منگیتر کے سامنے پیش کر دیا اور جب تک وہ بچی کے ساتھ منہ کالا کرتا رہا وہ کھڑی ہو کر نگرانی کرتی رہی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

برسات کے دنوں میں جس طرح چاروں طرف کیڑے مکوڑے نکل آتے ہیں اسی طرح اس وقت جنسی درندے بجبجاتے نظر آرہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح روزانہ معصوم لڑکیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات ایسے واقعات کی خبروں سے بھرے نہ ہوں۔ انسانیت اس طرح دم توڑ گئی ہے کہ باپ کے ذریعے بیٹیوں کی عزت لوٹنے کی خبریں آرہی ہیں تو شوہروں کے ذریعے اپنی بیویوں کو اپنے دوستوں کے سامنے سامان عیش و عشرت کی مانند پیش کر دینے کے گھناؤنے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔

کم عمر لڑکیوں کے ساتھ ہوس پرستی کے واقعات تو بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ دو تین روز قبل دہلی میں ایک ایسی عورت پکڑی گئی جس نے اپنی ایک کم عمر عزیزہ کو مشروب میں شراب پلا کر اپنے منگیتر کے سامنے پیش کر دیا اور جب تک اس کا منگیتر اس بچی کے ساتھ منہ کالا کرتا رہا وہ بھی وہیں کھڑی ہو کر نگرانی کرتی رہی۔ ان واقعات نے دل و دماغ کو بھنّا کر رکھ دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا واقعی ہم اکیسویں صدی میں ہیں یا پھر وہ دور جاہلیت واپس آگیا ہے جب عورتوں کو سامان تعیش سمجھا جاتا تھا اور ان کی کوئی قدر و منزلت نہیں تھی۔

اس صورت حال سے ہر سنجیدہ شخص پریشان ہے۔ وہ ان حالات کو دیکھ کر تشویش زدہ ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے۔حکومت نے بارہ سال تک کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے کو سزائے موت کا قانون وضع کر دیا ہے اور صدر نے اس پر دستخط کرکے اسے عملاً نافذ العمل بھی کر دیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنسی درندوں کو کوئی خوف نہیں ہے، کوئی ڈر نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جس روز یہ قانون بنا اس روز بھی بچیوں کے جنسی استحصال اور عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔ کٹھوعہ اور اناؤ کے دلدوز واقعات کی سنگینی کیا کم تھی کہ مزید واقعات ہو رہے ہیں۔

2012 میں نربھیا کے واقعہ کے بعد جس طرح پورے ملک میں احتجاج کی آندھی چلی تھی اور اس سلسلے کے قوانین سخت کیے گئے تھے اس سے اندازہ تھا کہ اب ان جرائم پر روک لگے گی۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ان جرائم کی تعداد کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ نربھیا کے مجرموں کو نسبتاً تیز رفتار عدالتی کارروائی کے ساتھ سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن چونکہ اس سزا پر ابھی تک عمل نہیں ہوا اس لیے قانون کا خوف پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ضرورت مزید قانون بنانے کی نہیں ہے بلکہ جو قوانین موجود ہیں ان کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں کا عدالتی نظام ایسا ہے کہ کسی مجرم کا جرم ثابت کرنے اور اسے سزا سنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ سزا سنا بھی دی جاتی ہے تو اس پر عمل نہیں ہو پاتا۔ جبکہ عرب ملکوں میں اس معاملے میں تاخیر نہیں کی جاتی بلکہ جلد از جلد عدالتی کارروائی مکمل کرکے مجرم کو سزا دے دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ کیا ہندوستان میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے واقعات کے لیے تیز رفتار عدالتیں بنائیں جائیں اور ان کے لیے مقدمہ نمٹانے کا ایک وقت مقرر کر دیا جائے۔ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ صرف بارہ سال تک کی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے والوں کو ہی سزائے موت کا انتظام کیوں، کیوں نہ ہر زانی کو سزائے موت دی جائے۔

اس حوالے سے خود ساختہ بھگوان آسا رام کو سنائی جانے والی سزا کا ذکر نامناسب ہوگا۔ آسا رام جیسے لوگوں پر بہت سے لوگ بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان کو بھگوان کا اوتار مان کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں۔ ان کو انتہائی مقدس اور پوتر سمجھتے ہیں۔ لیکن جب ایسے لوگ مذہب کی آڑ میں اپنے ہی شاگردوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں تو لوگوں کا یقین ان پر سے اٹھ جاتا ہے۔ جب رام رحیم اور آسا رام جیسے لوگوں کا جرم ثابت ہو جاتا ہے اور انھیں جیل ہو جاتی ہے تو بہت سے لوگ ایسے لوگوں سے ہوشیار ہو جاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان پر الزامات کو غلط اور بے بنیاد مانتے ہیں۔ لیکن جب وہی ان جیسے لوگوں کے شکار ہوتے ہیں تب ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔

جودھپور کی ایک عدالت نے آسارام کو ایک 16 سالہ طالبہ کے ساتھ جسے ان پر پورا بھروسہ تھا اور جو انھیں بھگوان کا اوتار مانتی رہی ہے اور جس کے اہل خانہ اسے آسا رام کے پاس اس لیے لے گئے تھے کہ اسے دھرم کا گیان ہو جائے گا لیکن جب آسارام نے اسی لڑکی کو ہوس کا شکار بنایا تو بتائیے ان نام نہاد اور خود ساختہ دھرم گروؤں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھے گا نہیں تو کیا ہوگا۔ ان لوگوں کی کارستانیوں کی وجہ سے حقیقی سَنت بھی شکوک و شبہات کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ لیکن شکر ہے کہ ہندوستان کی عدالتیں کسی دباؤ کے بغیر کام کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسپیشل جج مدھوسودن شرما آسا رام کو تا حیات قید کی سزا نہیں سنا پاتے۔ حالانکہ آسا رام کی جانب سے گواہوں کو ڈرانے دھمکانے کی بہت کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ ایک گواہ کو قتل کروا دیا گیا اور ایک ابھی تک لاپتہ ہے۔ کئی گواہوں پر حملے کیے گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جس اعلی پولس افسر نے اس معاملے کی جانچ کی اس کو بھی ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی۔ اس کو دو ہزار کی تعداد میں دھمکی آمیز خطوط ارسال کیے گئے اور اسے فون کرکے ڈرایا گیا۔ لیکن اس ایماندار پولس افسر نے بلا خوف جانچ کی اور آسا رام کے خلاف مضبوط کیس بنایا۔ جودھپور کے جس اسکول میں مذکورہ لڑکی زیر تعلیم تھی اس کے پرنسپل پر دباؤ بنا کر جھوٹا برتھ سرٹی فیکٹ بنانے کو کہا گیا اور کہا گیا کہ وہ اس کی عمر زیادہ لکھ دیں تاکہ آسا رام پر نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا کیس کمزور ہو جائے۔ لیکن پرنسپل نے انکار کیا اور کہا کہ لڑکی کے والدین نے جو سند جمع کی ہے میں اسی کے مطابق کاغذ بناؤں گا۔

در اصل ایسے لوگوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ مختلف جماعتوں کے لیڈران ان کے پاس جاتے ہیں اور ان سے آشیرواد لیتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کو کمزور کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو اس لیے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور اگر کوئی بابا کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے حق میں اپیل کر دے گا تو الیکشن میں اس کی جیت پکی ہو جائے گی۔ آسا رام کا معاملہ ہو یا رام رحیم کا بی جے پی لیڈروں نے کس طرح ان کا مہیما منڈن کیا تاکہ ووٹ حاصل کرکے اپنی سیاست چمکائی جائے۔ عوام کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔