مودی کی پٹنہ ریلی فلاپ ہونے سے این ڈی اے فکر مند

’’مودی کی تقریروں میں اب ایک ہی بات بار بار سنائی دیتی ہے۔ ان کے پاس اب لوگوں کو بتانے کے لیے کچھ بچا نہیں ہے۔ آخر کار قومی سیکورٹی کے معاملے پر آپ کب تک اپوزیشن کو قصوروار ٹھہراتے رہیں گے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

وزیر اعظم نریندر مودی کی 3 مارچ کو پٹنہ میں ہوئی ریلی آخر کیوں ناکام رہی، اس کا جواب تو سیاسی پنڈت بھی تلاش نہیں کر پا رہے ہیں۔ آخر مودی کے کٹر سیاسی مخالفین بھی یہ تو مانتے ہی ہیں کہ بھیڑ کھینچنے میں مودی کا کوئی جواب نہیں۔ اتفاق سے اس ریلی کا انعقاد ہندوستانی فضائیہ کے ذریعہ بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک کے پانچ دن بعد کیا گیا تھا اور سبھی این ڈی اے لیڈروں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تاریخی ریلی ہوگی۔

ٹھیک پانچ سال پہلے اسی دن مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مظفر پور میں اپنی انتخابی تشہیر کی شروعات کی تھی۔ شمالی بہار کا یہ شہر پٹنہ سے چھوٹا ہے، لیکن اس میں لوگوں کی زبردست بھیڑ جمع ہوئی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ ان دنوں مظفر پور کی پہچان شیلٹر ہوم واقعہ سے زیادہ ہو رہی ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار نے تو 3 مارچ کی ’سنکلپ ریلی‘ کو کچھ دنوں پہلے ہوئی سی پی آئی کی ریلی کے یکساں بتا دیا۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ سی پی آئی کا کوئی خاص مینڈیٹ نہیں ہے اور بہار اسمبلی میں اس کا کوئی رکن اسمبلی یا لوک سبھا میں کوئی رکن پارلیمنٹ تک نہیں ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات اور 2015 کے اسمبلی انتخابات کے برعکس اس بار بہار کی برسراقتدار پارٹی جنتا دل یو این ڈی اے کے ساتھ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بہار کی سرکاری مشینری کا ’سنکلپ ریلی‘ کے انعقاد میں استعمال نہیں ہوا ہے، تو یہ نامناسب نہیں ہوگا۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ پچھلی بار کی طرح مودی کی مخالف بھی نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار منوج چورسیا کہتے ہیں کہ ’’مودی کی تقریروں میں اب ایک ہی بات بار بار سنائی دیتی ہے۔ ان کے پاس اب لوگوں کو بتانے کے لیے کچھ بچا نہیں ہے۔ آخر کار قومی سیکورٹی کے ایشو پر آپ کب تک اپوزیشن کو قصوروار ٹھہراتے رہیں گے۔ اس ایشو پر اس سے پہلے کسی اور حکومت نے اتنا ڈھلمل رویہ نہیں اختیار کیا۔‘‘

جب جنتا دل یو کے نائب صدر پرشانت کشور نے کہا کہ وہ جنگ مخالف ہیں تو اس ایشو پر جنتا دل یو میں زبردست کشمکش کی حالت پیدا ہو گئی۔ سنکلپ ریلی میں پرشانت کشور تھے یا نہیں، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ مودی نے اپنی تقریر کی شروعات میں بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یو صدر نتیش کمار کا نام تک نہیں لیا۔ جب کہ انھوں نے بی جے پی صدر سمیت اپنی پارٹی کے کئی اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کے نام گنائے۔ مودی کی ’سنکلپ ریلی‘ میں بھیڑ نہ آنے سے این ڈی اے لیڈر فکرمند ہو گئے ہیں، کیونکہ ریلی شروع ہونے سے پہلے تک تو وہ لمبے چوڑے دعوے کر رہے تھے۔ لوکل چینلوں نے جان بوجھ کر ریلی میں بھیڑ کی تصویریں نہیں دکھائیں کیونکہ اس سے بہار کے برسراقتدار اتحاد کو شرمندگی اٹھانی پڑتی۔

ایک دیگر سیاسی تجزیہ نگار عبدالقادر نے ریلی ناکام ہونے کے پیچھے کی وجہ بی جے پی اور اس کی معاون پارٹیوں کے لیڈروں کی نااہلی کو بتایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھی یہ بات کہی کہ مودی کے ذریعہ ایک ہی بات کو سنتے سنتے لوگ تھک چکے ہیں کیونکہ ان کی تقریروں میں اب کچھ نیا نہیں ہوتا ہے۔ اس ریلی کے دوران این ڈی اے کے کچھ کارکنان کہتے سنے گئے کہ ’’سیکورٹی اتنی سخت تھی کہ پارٹی کا جھنڈا تک لے جانے نہیں دیا گیا۔ اس کے سبب ہم نے تو گاندھی میدان میں نہ جانا ہی بہتر سمجھا۔‘‘

قابل غور ہے کہ مودی جی نے جب پچھلی بار 27 اکتوبر 2013 کو پٹنہ میں ریلی کی تھی تو ’ہنکار ریلی‘ سے پہلے سلسلہ وار دھماکے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں تقریباً نصف درجن لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس کے بعد مودی جی نے ریاست میں کئی ریلیاں کی ہیں۔ ان میں سب سے اہم 4 جنوری 2017 کو گرو گووبند سنگھ کے 350ویں جنموتسو کے موقع پر ہوئی ریلی تھی۔ ویسے یہ بات بھی غور کرنے والی ہے کہ مودی جی لگاتار بہار آتے رہے ہیں اور ان سے پہلے کسی اور وزیر اعظم نے بہار میں اتنی ریلیاں نہیں کی تھیں۔

2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں مودی نے بہار میں 31 ریلیاں کی تھیں۔ ان سبھی جگہوں پر زبردست سیکورٹی کے انتظامات تھے، پھر بھی لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہوئی تھی۔ حالانکہ اس انتخاب میں بی جے پی کی کارکردگی مایوس کن رہی تھی اور وہ اقتدار سے دور رہی تھی۔ سچائی یہ ہے کہ مودی نے خود کو ضرورت سے زیادہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ تنہا پٹنہ میں ہی وہ پچھلے سالوں میں کتنی بار لوگوں کو خطاب کر چکے ہیں اور اب لوگوں کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ مہینوں میں انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ ہائی کورٹ اور بہار میوزیم کے افتتاح کے موقع پر بھی لوگوں کو خطاب کیا تھا۔

یہ سبھی مقامات پٹنہ ائیر پورٹ کو جانے والے راستے پر ہی ہیں، اس لیے ہر بار ان راستوں پر چوکسی اور سیکورٹی سخت کر دی جاتی ہے۔ اس بار کی سنکلپ ریلی تو ایسے وقت پر ہوئی ہے جب سی بی ایس ای کے امتحانات چل رہے ہیں اور وی وی آئی پی سیکورٹی کے سبب لوگوں کو دقتیں ہوئیں۔ کیونکہ پٹنہ کے زیادہ تر تعلیمی ادارے یا تو بیلی روڈ پر ہیں یا پھر اشوک راج پتھ پر، اور گاندھی میدان ان دونوں کے وسط میں واقع ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Mar 2019, 10:09 AM