مسلمانوں کو مودی کے خفیہ حلیف سے محتاط رہنے کی ضرورت... ظفر آغا

مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ بی جے پی کے کھلے یا خفیہ حلیف کو دیا گیا ووٹ دراصل بی جے پی کو ووٹ ہوگا، بہ الفاظ دیگر یہ مودی کو ووٹ دینے کے مترادف ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

اللہ رے سیاست کے پیچ و خم! کون کب سیکولر کیمپ چھوڑ کر فرقہ پرستوں کا ہاتھ تھام لے اس بات کا اب کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ کل تک تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) سیکولرزم کی قسمیں کھاتے تھے۔ اب وہی راؤ صاحب کو مودی کی صحبت بہتر لگ رہی ہے۔ گو انہوں نے اس بات کا اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ باقائدہ ہاتھ ملانے جا رہے ہیں۔ لیکن نریندر مودی سے ان کی قربت اب اخباروں کی رونق بن چکی ہے۔ خبروں کے مطابق ’کے سی آر‘ اب تک تین بار مودی سے ملاقات کر چکے ہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کو صیغہ راز ہی رکھا گیا ہے۔ کیونکہ راؤ اور مودی کی حکمت عملی کے مطابق اسمبلی چناؤ تک ان تعلقات کو پردہ راز میں رکھنا ہی سیاسی ہوشیاری ہوگی۔ لیکن وہ کیوں!

چندر شیکھر راؤ اور بی جے پی کے درمیان بڑھتے رشتوں کی مشکل تلنگانہ کے مسلمان ہیں۔ تلنگانہ میں مسلم ووٹ بینک چندر شیکھر راؤ کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تلنگانہ اسمبلی کی تقریباً 20-25 سیٹوں پر مسلم ووٹ کی حمایت کے بغیر کوئی پارٹی کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے مسلم حمایت کے بغیر راؤ اسمبلی چناؤ نہیں جیت سکتے ہیں۔ پچھلی بار مسلم حمایت نے راؤ صاحب کے لئے کمال کیا اور وہ بھاری اکثریت حاصل کر تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ بن بیٹھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے ایک مسلم نائب وزیر اعلیٰ بھی مقرر کیا جو کہنے کو تو اہمیت کا حامل ہے لیکن حقیقت میں وہ صرف ایک کھلونہ ہے۔ پچھلے تقریباً پانچ سالوں میں راؤ صاحب کے دور حکومت میں نہ تو عام مسلمان کے حالات بدلے اور نہ ہی اس کے لئے ترقی کی کوئی نئی راہ کھلی۔ ہاں حیدر آباد کی مسلم اتحاد المسلمین کے ساتھ ان کے جو رشتے تھے اس کے سبب اس پارٹی کی لیڈرشپ اور اس سے جڑے ایک محدود طبقہ کے کچھ مفاد ضرور حل ہوئے ہیں۔

اب چندر شیکھر راؤ کو دوبارہ اقتدار میں آنا ہے، اس لئے ان کو مسلم ووٹ بھی چاہیے اور مجلس کے ساتھ الائنس بھی برقرار رکھنا ہے۔ کھلے بندوں بی جے پی اور مودی کا ہاتھ تھام کر یہ ممکن نہیں، اس لئے بی جے پی سے اندر خانے مفاہمت رکھو اور جب اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر چناؤ جیت لیا جائے تو پھر لوک سبھا چناؤ کے وقت کھل کر بی جے پی کا دامن تھام لو۔ یہ ہے چندر شیکھر راؤ کی حکمت عملی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تلنگانہ کا مسلمان چندر شیکھر راؤ کے اس چکمے میں آ کر بے وقوف بن جائے گا! یہ تو اسمبلی چناؤ کے بعد نتائج ہی بتائیں گے۔ لیکن ان چناؤ میں تلنگانہ مسلم اقلیت کے سامنے بھی وہی سیاسی سوال اور مسائل درپیش ہیں جو سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل ہیں۔

اس پس منظر میں یہ بات طے کرنی ہوگی کہ اقلیتیں کہاں ووٹ ڈالیں! اس فیصلے سے قبل یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ بی جے پی کے کھلے یا خفیہ حلیف کو دیا گیا ووٹ دراصل بی جے پی کو ووٹ ہوگا۔ بہ الفاظ دیگر یہ مودی کو دئیے گئے ووٹ کے مترادف ہوگا۔ یاد کیجئے کہ سن 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں مودی کو اپنے دم خم پر اکثریت نہیں حاصل ہونے والی ہے۔ بی جے پی کو یہ امید ہے کہ وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر آئے گی اور پھر دوسروں سے ہاتھ ملا کر مودی کو دوبارہ گدی پر بیٹھا دیا جائے گا۔ تلنگانہ کے پڑوسی آندھرا پردیش میں بی جے پی کے پرانے حلیف چندرا بابو نائیڈو مودی کا ہاتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اس لئے بی جے پی نے راماراؤ پر ڈورے ڈالے اور ان کو رام کر لیا۔ اب مودی اور کے سی آر میں مفاہمت ہو چکی ہے۔ جیسا عرض کیا کہ اسمبلی چناؤ میں بی جے پی تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کا خفیہ طور پر ساتھ دے گی اور لوک سبھا چناؤ آتے آتے مودی تلنگانہ کو خصوصی امداد دینے کا وعدہ کرے گی اور پھر دونوں مل کر 2019 کے پارلیمانی چناؤ لڑے گیں۔

یعنی کے سی آر مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنوانے میں پوری مدد کریں گے۔ اب طے کر لیجئے کہ تلنگانہ کی اقلیتیں ووٹ کس کو ڈالیں! یعنی راؤ کو ووٹ مودی کو ووٹ ہوگا۔ مودی کو دیا گیا ووٹ موب لنچنگ کو ووٹ ہوگا۔ مساجد اور چرچوں پر ہونے والے حملوں کو ووٹ ہوگا۔ مودی کو ووٹ دلتوں پر ہونے والے مظالم کو ووٹ ہوگا۔ کسانوں کی بھوک سے ہونے والی خود کشی کو ووٹ ہوگا۔ نوجوانوں کی بے روزگاری کو ووٹ ہوگا۔ کیا ایک ذی ہوش اقلیتی فرقہ کا ووٹر ان باتوں کی حمایت میں ووٹ ڈال سکتا ہے! صرف اتنا ہی نہیں مودی کو سیدھا یا ان کے حامیوں کے ذریعہ ملنے والا ووٹ آرایس ایس کو مضبوط بنانے والا ووٹ ہوگا۔ اور آر ایس ایس کی مضبوطی ’ہندو راشٹر‘ کی مضبوطی ہوگی۔ وہ ’ہندو راشٹر‘ جہاں کے اقلیتوں کے لئے دوسرے درجے کی شہریت طے کر دی گئی ہے۔

تلنگانہ میں جلد ہی ہونے والے چناؤ محض اسمبلی چناؤ نہیں ہوں گے بلکہ یہ چناؤ سن 2019 کے لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل ہوگا۔ اگر ان چناؤ میں مودی کے خفیہ حلیف کامیاب ہوتے ہیں تو سن 2019 میں مودی کی دوبارہ تخت نشینی کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ اس لئے تلنگانہ کے ووٹر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسمبلی چناؤ کو مودی کے اگلی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش کا ریفرنڈم سمجھ کر ووٹ ڈالے۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا ہوگا کہ مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ راؤ صاحب کا اتحاد ہے اس لئے وہ مسلم دوست ہیں، اقلیتوں کو اس جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔ بی جے پی کے حلیف کا حلیف بھی مودی حلیف ہی ہوگا۔ لہذا تلنگانہ چناؤ میں اقلیتوں کو سیکولر عوام کے ساتھ مل کر سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ ڈالنے کی حکمت عملی بنانے کی تیاری کرنی چاہئے۔ کیوں کہ سنگھ مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے پر آئین میں تبدیلی کی پوری تیاری کر چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Sep 2018, 11:02 AM
/* */