بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں! ... م-افضل

انتخاب کے بعد پی ایم اس حد تک مسرور نظر آئے کہ انہوں نے رمضان کی اہمیت اور فضائل پر نہ صرف بیان دیا بلکہ مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد بھی دی۔ کیا واقعی مودی جی کا دل بدل گیا ہے یا پھرکوئی حکمت ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

م. افضل

اس بار مودی جی کی کابینہ ہی بدلی ہوئی نہیں ہے بلکہ ان کارویہ بھی کچھ بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ بات بلاشبہ حیرت انگیز کہی جاسکتی ہے کہ نومنتخب ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں اپنی پہلی میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی نے تقریرکرتے ہوئے دوسری کئی باتوں کے ساتھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو یاد رکھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اب تک اقلیتوں کو ڈر اور خوف کے ماحول میں رکھ کر ان کا سیاسی استحصال کیا جاتا رہا ہے اور انہیں محض ایک ووٹ بینک بنا کر رکھ دیا گیا۔ انہوں نے ایک بڑی بات یہ کہی کہ اس بار ہمیں اقلیتوں کا دل جیتنا ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد وزیراعظم کچھ اس حد تک مسرور نظر آئے کہ انہوں نے رمضان کی اہمیت اور فضائل پر نہ صرف بیان دیا بلکہ مسلمانوں کو ماہ رمضان کی مبارکباد بھی دی۔ عید کے موقع پر وزیراعظم نے ٹوئٹ کرکے ایک تفصیلی مبارکباد دی اور مسلم نوجوانوں کو عیدی دینے کا اعلان بھی کیا۔ اس کے تحت تقریباً 5 کروڑ مسلم نوجوانوں کو تعلیم کے لیے اسکالرشپ جاری کرنے کا خوش کن اعلان سامنے آیا۔

دوسرے برادران وطن کی طرح مسلمان بھی ملک کے شہری ہیں اور آئین نے انہیں بھی وہی اختیارات اور حقوق دیئے ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ آئین کے رہنما اصولوں کو کبھی ایمانداری سے نافذ نہیں کیا گیا جو اقلیتوں کے تعلق سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت اور اقلیت کے درمیان شروع ہی سے ایک ناقابل عبور خلیج حائل ہے اور سیاست وقت گزرنے کے ساتھ اس خلیج کو گہری اور وسیع کرتی رہی ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اکثریت اور اقلیت کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج کو بڑھانے میں آرایس ایس اور بی جے پی کا کلیدی رول رہا ہے جن کی نمائندگی وزیراعظم کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد کی تاریخ شاہد ہے کہ آرایس ایس نے مسلمانوں کے تعلق سے اکثریت کے اذہان میں پروپیگنڈہ اور جھوٹ کی تشہیر کے ذریعہ منافرت کے آبیاری کی۔ وہیں بی جے پی سیاسی طور پر مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو صف آرا اور متحد کرنے کی کوششیں کرتی آئی ہے اور ایسا کر کے ہی اس نے اقتدار حاصل کیا ہے۔ چنانچہ دو بارہ اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے جس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں اس پر دل اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اس حوالہ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات ہیں اور طرح طرح کے خدشات بھی سرابھارنے لگے ہیں۔


قارئین بھولے نہ ہوں گے 2014 میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیراعظم نے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی سرکار کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ سب کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے مگر پچھلے پانچ برسوں کے دوران جو کچھ ہوا یہاں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ ملک کا ہرشہری اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ بہت دور نہ جائیں الیکشن کے دوران ہی وزیراعظم جس طرح کی تقریریں کرتے رہے ہیں وہ اکثریت کو خوش کرنے اور انہیں متحد کرنے والی تھیں۔ اقتدار میں تبدیلی سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے اور اس تبدیلی کے لیے عوام بڑی امیدوں کے ساتھ ووٹنگ کرتے ہیں۔ چنانچہ جب مودی جی پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو دوسرے برادران وطن کی طرح مسلمانوں نے بھی ان کا استقبال کیا تھا اس لئے کہ ترقی اور دلفریب وعدوں کی بنیاد پر ہی وہ اقتدار میں آئے تھے اوردوسرے لوگوں کی طرح مسلمانوں کو بھی لگا تھا کہ ان کے لئے بھی اچھے دن آسکتے ہیں۔ انہوں نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کاجو نعرہ دیا تھا وہ چند روز بعد ہی کہیں پیچھے چلا گیا اور اکثریت اور اقلیت کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی سیاست کا آغاز ہوگیا۔ ترقی کی جگہ موب لنچنگ کی پالیسی کو ہر سطح پر آگے بڑھانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اقلیتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا کہ وہ ترقی کی ریس میں اکثریت کے ساتھ خود کو شامل نہ سمجھیں۔ اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یو پی اے کے دور میں اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے چلائی گئی تمام اسکیموں کو رفتہ رفتہ ختم کردیا گیا۔ اقلیتی امور کی وزارت تو موجود رہی مگر اقلیتوں کے مسائل پر نہ تو کبھی غور وخوض ہوا اور نہ ہی انہیں حل کرنے کا کوئی لائحہ عمل ہی تیار ہوا۔ بجٹ میں اس وزارت کے لیے مخصوص کیا گیا فنڈ خرچ کیے بغیر واپس ہوتا رہا۔

چنانچہ اب جبکہ اپنی دوسری مدت کار میں وزیراعظم اقلیتوں کا دل جیتنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں تو دل اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بنیادی سوال تو یہی ہے کہ پانچ سال کے بعد وزیراعظم کو اقلیتوں کا دل جیتنے کا خیال کیوں آیا؟ اگر وہ مخلص ہوتے تو یہ کام اپنی پہلی مدت کار میں بھی کرسکتے تھے مگر ایسا کرنے کی جگہ مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی طور پر حاشیے پر پہنچا دینے کا کام ہوا۔ ان کے وزراء اور پارٹی کے دوسرے لیڈر تسلسل کے ساتھ اشتعال انگیزیاں کرتے اور مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے رہے اور وزیراعظم خاموش رہے مگر اب ایسا کیا ہوا کہ وزیراعظم کا دل پگھل گیا اور اس میں اقلیتوں کے لیے محبت اور ہمدردی کا سمندرٹھاٹھیں مارنے لگا؟ آرایس ایس اور بی جے پی دونوں کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا ہے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ دیتا ہے۔ ان کا یہ الزام بھی بہت پرانا ہے کہ سیکولر پارٹیاں بی جے پی کے تعلق سے مسلمانوں کو بہکانے کا کام کرتی ہیں اس الزام کو اگر سچ مان لیا جائے تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا بی جے پی نے کبھی مسلمانوں کا ووٹ لینے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی؟ نہیں اس نے کبھی اس طرح کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے ہمیشہ مسلم مخالف ایجنڈہ اپنا کر ہی الیکشن لڑا۔ آرایس ایس اور بی جے پی نے اپنے اس ایجنڈے کے سہارے اکثریت کو اپنے حق میں صف بند کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ہندتوا اور مذہبی شدت پسندی ہی اس کے حقیقی سیاسی ہتھیار رہے ہیں اور ہندوراشٹر کا قیام ان کا اصل مشن رہا ہے۔


2019 کا الیکشن بی جے پی نے کس طرح اور کیسے جیتا ہم اس مضمون میں اس پر کوئی بحث نہیں کریں گے لیکن یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے میں مسلمان کہیں نہیں تھا۔ اس سے پہلے بی جے پی کا ایک آدھ مسلم امیدوار بھی ہوا کرتے تھے لیکن اس بار پارٹی نے اپنے پرانے مسلم لیڈروں کو بھی ایک عدد ٹکٹ کا حق دار نہیں سمجھا۔ ظاہر ہے ایسا کرکے شاید اکثریت کو یہ پیغام دینا تھا کہ مسلمان ہمارے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہیں۔ تو اب الیکشن جیتنے کے بعد مسلمان اچانک وزیراعظم اور سرکار کے ایجنڈے کا حصہ کیسے ہوگئے؟ اس بار ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ نعرہ میں ’سب کا وشواس‘ کا ٹکڑا بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ ہم پچھلے پانچ برسوں کے دوران’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ نعرہ کا حشر دیکھ چکے ہیں اس لئے نئے نعرہ کو لے کر ہمارے اندر نہ تو کوئی تجسس ہے اور نہ ہی کوئی امید۔ ہوسکتا ہے الیکشن میں ہوئی دھاندلیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ٹرک اپنائی گئی ہو اور یہ بتانے کے لئے بھی کہ دنیا وزیراعظم اور بی جے پی کے تعلق سے جیسا سوچتی ہے ویسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ تو ملک کے ہرشہری کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم باور کرا دیں بی جے پی کی جیت کو عالمی میڈیا نے راشٹرواد کی کامیابی قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کے مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ نے تو یہ بھی لکھا کہ اب ہندوستان کو ہندو راشٹر کے طور پر جانا جائے گا۔ اسی طرح عین الیکشن کے موقع پر امریکی رسالہ ٹائمس میگزین وزیراعظم کو ہندوستان کو تقسیم کرنے والے رہنما کا خطاب دے چکا ہے۔ دنیا میں نظریاتی بنیاد پر قائم ہونے والی کوئی مملکت تا دیر قائم نہیں رہی۔ سوویت روس اشتراکی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ وہ دنیا کا سپرپاور بھی بنا مگر پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اس کے کس طرح ٹکڑے ٹکرے ہوگئے۔ اسرائیل بھی ایک نظریاتی مملکت ہے مگر اپنے قیام سے لے کر اب تک وہ ایک غیر مستحکم مملکت ہے اس لئے اگر کچھ لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ ہندوستان کونظریاتی مملکت میں تبدیل کرکے وہ کوئی بہت بڑا میدان سرکرلیں گے تو ایسے لوگ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ویسے اس بات کے قوی آثار ہیں کہ اب ملک کو نظریاتی مملکت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ آرایس ایس اس بار چپ بیٹھنے والی نہیں لیکن عالمی سطح پر اس تبدیل شدہ ہندوستان کو قبولیت مل سکے گی اس کا امکان نہیں ہونے کے برابر ہے۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے آزادی کے بعد اگر چہ انہیں ترقی کے مساوی مواقع نہیں ملے۔ انہوں نے ڈر اور خوف کے سائے میں ہی اب تک زندگی گزاری ہے لیکن ان کا طرز عمل مثالی طرز عمل رہا ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا کی دوسری قوموں کا۔ ان کی حب الوطنی مسلسل سوالیہ نشان کے دائرہ میں رہی ہے لیکن ہر وقع پر انہوں نے اپنی حب الوطنی اپنے عمل وکردار سے ثابت کی ہے۔ وہ یہ بھی فیصلہ کرچکا ہے کہ حالات چاہے جیسے ہوں اسے یہیں رہنا اور یہیں مرنا ہے، اس لئے اگر کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے وہ کسی طرح کے احساس کمتری یا خوف کا شکار ہوچکا ہے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان کسی پارٹی کا ووٹ بینک نہیں ہے بلکہ مودی جی جس آئین کی قسمیں کھاتے ہیں وہ اسی آئین کے تحفظ کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتا ہے اور اس پارٹی کو ووٹ دیتا ہے جو آئین کو مانتی اور تسلیم کرتی ہے۔ جیسا کہ اوپر آچکا ہے مسلمان اس ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہے اور آئین نے اسے یہاں باعزت طریقہ سے جینے کا حق دے رکھا ہے اور ملک کے وسائل پرجتنا حق دوسرے شہریوں کا ہے وہی حق مسلمانوں کا بھی ہے۔ اس لئے اگر کوئی سرکار ان کے لیے کچھ کرتی ہے تو یہ اس کا آئینی فرض ہے لیکن اس آئینی فرض کو آرایس ایس اور بی جے پی کے لوگ منہ بھرائی کا نام دیتے ہیں۔ وزیراعظم ہمیشہ آئین سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے آئے ہیں اس لئے ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اگر واقعی اقلیتوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں زیادہ کچھ نہیں کرنا ہے بس یہ کریں کہ سب سے پہلے اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو ترک کر دیں اور اقلیتوں کو وہ حق دے دیں جو آئین نے انہیں دیا ہے۔ کیا وہ ایسا کرسکیں گے؟


(مضمون نگار اردو کے نامور صحافی اور کانگریس کے قومی ترجمان ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Jun 2019, 7:10 PM