مظفر نگر فساد کے 5 سال بعد لوٹ آئی محبت کی بہار، متحد ہوئے جاٹ اور مسلم

فساد کے ایک سال بعد جیسا ماحول تھا وہ اب بالکل بدل گیا ہے۔ پہلے سال لوگوں میں دوریاں بہت زیادہ تھیں، اس کے بعد وہ کم ہونے لگیں۔ اب لوگوں کے درمیان بی جے پی کے تئیں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: کیرانہ ضمنی انتخاب کے نتائج برآمد ہونے کے بعد بی جے پی کے زیادہ تر لیڈر جاٹ اکثریتی گاؤوں میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں کر رہے۔ غیر جاٹ بی جے پی لیڈر تو سماجی تقاریب میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ حالات ایسے ہیں کہ کوال گاؤں میں مارے گئے گورو کے والد رویندر اب لگاتار میڈیا کے سامنے آ کر اپنے بیٹے کے قتل پر کی گئی بی جے پی کی سیاست سے ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈر اگر نشیب و فراز کی بات کرتے ہیں تو جاٹ ناراض ہو جاتے ہیں۔ جاٹ نوجوانوں کا پورا جھکاؤ جینت چودھری کی طرف ہو چکا ہے۔ جاٹ مانتا ہے کہ فساد نے ان کی سیاسی اور سماجی زمین کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے۔

تازہ حالات یہ ہیں کہ گزشتہ مہینے کانوڑ یاترا کے دوران ایک مسلم ادارہ کے ذریعہ لگائے گئے کیمپ میں ہندوستانی کسان یونین کے قومی صدر نریش ٹکیت نے شرکت کی اور جمعیت علماء ہند کے لوگوں سے گلے ملے۔ یہ وہی نریش ٹکیت ہیں جنھوں نے پانچ سال پہلے 7 ستمبر کو ہوئی نتیجہ خیز پنچایت کا انعقاد کیا تھا۔

فساد کے ایک سال بعد جیسا ماحول تھا وہ اب بالکل بدل گیا ہے۔ پہلے سال لوگوں میں دوریاں بہت زیادہ تھیں، اس کے بعد وہ کم ہونے لگیں۔ اب لوگوں کے درمیان بی جے پی کے تئیں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کوال میں مارے گئے گورو کے والد 56 سالہ رویندر کہتے ہیں کہ ’’جو کچھ بھی ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ میرا ایک بیٹا اس سے پہلے حادثہ میں مر گیا تھا اور دوسرا بعد میں مار دیا گیا۔ وایک والد ہونے کے ناطے اس سے برا میرے ساتھ کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے بیٹے کی موت پر سیاست ہوئی، خاص طور سے بی جے پی کے لوگوں نے میرے بیٹے کی موت پر سیاسی روٹیاں سینکی۔‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

مسلمانوں میں بھی کم و بیش اسی طرح کا ماحول ہے۔ جاٹوں کے ساتھ ان کا دہائیوں سے اچھا رشتہ رہا ہے۔ زیادہ تر مقامی مسلم لیڈران جاٹوں کی پارٹی سے ہی ایوان میں پہنچے۔ ان میں قادر رانا، امیر عالم، مشتاق چودھری، راؤ وارث، کوکب حمید اور منور حسن جیسے نام ہیں۔ یہ سبھی جاٹوں کی پارٹی سے ایوان میں رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں تبسم حسن کی آر ایل ڈی امیدوار کے طور پر فتح میں بھی جاٹوں نے ایمانداری سے کوشش کی۔ مغربی اتر پردیش میں جاٹ مسلم اتحاد کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک وقت مظفر نگر کی سبھی 9 اسمبلی سیٹوں پر آر ایل ڈی کے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ جاٹ-مسلم اتحاد کی سیاست سابق وزیر اعظم اور کسانوں کے مسیحا کہلانے والے چودھری چرن سنگھ کا پسندیدہ عمل رہا ہے۔ آر ایل ڈی کے سہارنپور کے ضلعی صدر راؤ قیصر ایڈووکیٹ کہتے ہیں ’’اسی اتحاد کو توڑنے کے لیے مغربی اتر پردیش میں فساد کی سازش کی گئی تھی جس کا ایک بار فائدہ مل گیا۔ اب جاٹ اور مسلم دونوں خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ جاٹوں کو پورا احساس ہے کہ ان کی معصومیت اور جذباتیت کا بے حد غلط استعمال ہوا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی ایسا لگتا ہے کہ جاٹوں کے ساتھ کے بغیر ان کی طاقت کم ہو گئی۔‘‘

مظفر نگر کے جمعیۃ علماء ہند کے ترجمان مولانا موسیٰ قاسمی کہتے ہیں ’’یہ سمجھانے کی کوشش بھی ہوئی اور کچھ خود بھی سمجھ میں آ گیا ہے۔ ویسے جاٹ-مسلم اتحاد کے حق میں کھڑے لوگوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان اس تلخی کو دور کرنے میں چودھری اجیت سنگھ کا بڑا تعاون ہے۔ اپنی سیاسی زمین کھسکتی دیکھ کر انھوں نے جاٹوں کو مسلمانوں کے قریب لانے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی اور فساد متاثرہ مظفر نگر اور شاملی میں لگاتار دورے اور کیمپ کیے۔ اس وقت بھی آر ایل ڈی سپریمو اجیت سنگھ مظفر نگر میں اسی ہفتہ دو دن کیمپ کر کے لوٹے ہیں۔ آر ایل ڈی کے ترجمان ابھشیک چودھری کہتے ہیں ’’چودھری صاحب نے جاٹوں اور مسلمانوں کو قریب لانے میں بے حد سنجیدگی دکھائی ہے۔ وہ فساد متاثرین سے ان کے گھر گھر جا کر ملے ہیں۔ انھوں نے کھاپ پنچایتوں میں شرکت کی ہے۔ وہ کسانوں کا ’اتحاد‘ توڑنے سے متعلق سرمایہ داروں کی سازش کو دونوں طبقات کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب دونوں طبقات قریب آ رہے ہیں۔ کیرانہ انتخاب کے نتائج نے بھی ایک بڑا کام کیا ہے۔

چودھری اجیت سنگھ گزشتہ 2 سال سے لگاتار مظفر نگر میں فساد متاثرین اور کھاپ چودھریوں سے ملاقات کر رہے ہیں اور ان سے ایک ہو جانے کی اپیل کر رہے تھے۔ شاملی کے جتندر ہڈا کے مطابق 80 سال کی عمر والا ایک لیڈر جس کی زندگی میں آرام طلبی زیادہ رہی ہے، انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے گھر گھر گیا۔ اس نے تنقیدوں کا سامنا کیا، اس کا گھر چھین لیا گیا لیکن وہ جاٹ مسلم اتحاد کے لیے کمربستہ رہا، اور اس کا اثر عوام پر پڑنا ہی تھا۔‘‘

مقامی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ مانتے ہیں کہ ان کوششوں کے پس پشت سیاست میں کارفرما رہی۔ 2014 میں مظفر نگر فساد کے بعد مغربی اتر پردیش کی تاریخ بدل گئی۔ آر ایل ڈی کی بالادستی والے علاقے میں بی جے پی کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ جاٹوں کی ایک بڑی طاقت بھارتیہ کسان یونین تین حصوں میں منقسم ہو گئی۔ مسلمانوں اور ٹھاکروں نے اپنی الگ الگ تنظیمیں بنا لیں۔ حکومت کو پنجے میں رکھنے کی عادت والے کسان حاشیے پر آ گئے۔ گاؤں گاؤں پنچایت انتخاب میں جاٹ امیدوار شکست کھانے لگے۔ بھارتیہ کسان مزدور تنظیم کے قومی صدر غلام محمد جولا کبھی بھارتیہ کسان یونین کے بانی بڑے کسان لیڈر چودھری مہندر سنگھ ٹکیت کے بغلگیر تھے۔ یونین کے اسٹیج سے ’ہر ہر مہادیو‘ اور ’اللہ اکبر‘ کے نعرے ایک ساتھ لگتے تھے۔ حالات اتنے خراب ہو گئے کہ یونین کی رادجدھانی سسولی میں ایک پنچایت کے دوران جب ایک جاٹ لیڈر نے جاٹ-مسلم اتحاد کی بات کی تو اس کے ہاتھ سے مائک چھین لیا اور بے عزتی کرتے ہوئے اسٹیج سے اتار دیا گیا۔

بھارتیہ کسان مزدور منچ کے قومی صدر غلام محمد جولا کہتے ہیں ’’یہی وجہ تھی کہ ہمیں اپنا راستہ بدلنا پڑا۔ وہ برا وقت تھا، اب سب کی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ فساد میں سبھی جاٹ لوگ شامل نہیں تھے، بہت سارے جاٹوں نے مسلمانوں کی جان بھی بچائی تھی۔‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

کیرانہ ضمنی انتخاب میں تبسم حسن کی فتح کے مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ گزشتہ ہفتہ جب چودھری اجیت سنگھ فسادات کی پانچویں برسی پر مظفر نگر پہنچے تو مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد نے ان سے ملاقات کی۔ اس میں تمام بڑے مسلم چہرے تھے۔ انھوں نے چودھری صاحب سے مظفر نگر سے انتخاب لڑنے کی اپیل کی۔ نمائندہ وفد میں شامل آصف راہی کے مطابق ہم نے ان سے کہا کہ ہم انھیں ریٹرن گفٹ دینا چاہتے ہیں۔ جس طرح جاٹوں نے کیرانہ میں تبسم حسن کو انتخاب میں فتحیاب کرایا اسی طرح یہاں مسلمان آپ کو انتخاب میں فتحیاب کرانے کے خواہشمند ہیں۔

اجیت سنگھ گزشتہ 2 سال سے لگاتار جدوجہد کر رہے تھے لیکن بات نہیں بن رہی تھی۔ اس کی وجہ جاٹوں کے نوجوانوں میں بی جے پی کے تئیں جھکاؤ تھی۔ اس جھکاؤ کا رخ جینت چودھری نے پلٹ دیا۔ دیسی انداز اور اپنے دادا جیسے نظر آنے والے جینت دو ٹوک بات کرتے تھے۔ کاندھلا میں ایک جلسہ میں انھوں نے کھلے عام کہا کہ ’’نوجوانو مودی-مودی مت کرنے لگنا۔ تمھارا وجود خطرے میں ہے۔‘‘ جینت کے ہی نعرے ’جناح نہیں گنّا چلے گا‘ نے یہاں کی تصویر بدل دی۔

آر ایل ڈی میں واپسی کرنے والے سابق رکن پارلیمنٹ امیر عالم کے مطابق کیرانہ کی اس فتح نے دونوں طبقہ کے درمیان کی دوریوں کو ختم کر دیا اور پل کا کام کیا۔ اب ایک بار پھر جاٹ اور مسلم ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ فساد کے مقدموں میں دونوں فریقین میں سمجھوتہ کی کوششیں چل رہی ہیں۔ فضا پھر بدلی ہوئی ہے۔ جاٹ اور مسلمان صرف سیاسی طور پر متحد نہیں ہو رہے ہیں بلکہ آپس میں مل کر کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ چودھری اجیت سنگھ نے جاٹوں سے مسلمانوں کے تہوار اور شادی جیسی تقاریب میں شرکت کی اپیل کی تھی جس کا اثر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ عید، دیوالی اور شادی بیاہ جیسے مواقع پر دونوں پھر ساتھ ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔