کورونا کا مُسلم رنگ، حکومت کی ضرورت بھی مجبوری بھی... اعظم شہاب

کورونا کی روک تھام کے لیے حکومت کو اپنی تساہلی، لاپرواہی اور نااہلی پر اٹھنے والی آواز کی شدت کم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ عوام کے سامنے ہندو و مسلمان کا لاؤڈ اسپیکر خوب زور سے بجایا جائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

ابھی تک ہم گودی میڈیا کو ہی اس بات کا ذمہ دار سمجھتے رہے کہ تبلیغی جماعت کے نام پر وہ کورونا جیسی عالمی وبا کی مسلمانی کرنے پر تلا ہوا ہے، لیکن ’یہ پنیہ کا کام‘ اب براہ راست حکومتی سطح پر بھی ہونے لگا ہے اور کچھ اس انداز میں ہو رہا ہے کہ گویا اگر یہ نہ ہو تو کورونا سے لڑنے کی حکومت کی کوشش کمزور ہو جائے گی۔ یقین نہ ہو تو گزشتہ کل یعنی کہ 18 اپریل کو مرکزی وزارت صحت کے جوائنٹ سکریٹری جناب لَو اگروال کی وہ پریس پریفنگ دیکھ لیجیے، جس میں انہوں نے ملک میں کرونا پھیلانے کے لیے 30 فیصد حصہ دار تبلیغی جماعت کو قرار دیا ہے۔

لَو اگروال جی کا کہنا ہے کہ ملک میں جتنے بھی کورونا کے معاملے سامنے آئے ہیں، ان میں 30 فیصد لوگوں کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں اس کے مطابق تامل ناڈو میں 84 فیصد، نئی دہلی میں 63 فیصد، تلنگانہ میں 79 فیصد، آندھرا پردیش میں 61 فیصد اور اترپردیش میں 59 فیصد کیسیس تبلیغی جماعت سے متعلق ہیں۔ جس وقت جوائنٹ سکریٹری صاحب یہ بریفننگ فرما رہے تھے، اس وقت تک پورے ملک میں کل 14378 کورونا کے مثبت معاملات سامنے آچکے تھے ۔ جس کے بارے میں موصوف کا کہنا ہے کہ ان میں سے 4291 کیس یعنی کہ 29.8 فیصد کیسس تبلیغی جماعت سے متعلقین کے ہیں۔


کورونا کے تعلق سے مرکزی وزارت صحت کے یومیہ پریس بریفنگ میں اس وبا سے متاثرین کے اعداد وشمار کے ساتھ حکومتی اقدام کا ذکر رہتا ہے۔ لیکن کل کی پرس بریفننگ میں وزارت کی جانب سے میڈیا کو یہ بھی بریف کیا گیا کہ ملک میں جتنے بھی کورونا کے متاثرین کی تعداد سامنے آئی ہے، ان میں سے 29 فیصد متاثرین کا تعلق تبلیغی جماعت کے دہلی کے اجتماع سے ہے۔ یعنی کہ دوسرے لفظوں میں تبلیغی جماعت کے لوگوں نے ملک میں 30 فیصد کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس کے بعد انہیں یہ بتانے کی ضرورت قطعی نہیں تھی کہ یہ تبلیغی جماعت کے لوگ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اب ذرا ایک اور خبر دیکھیے۔ یہ خبر چھتیس گڑھ سے ہے جہاں 13 پریل کو چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں تبلیغی جماعت کے 159 افراد کی ایک فہرست پیش کی گئی یہ لوگ دہلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ مگر تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے 108 افراد کا تعلق نہ صرف یہ کہ تبلیغی جماعت سے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں۔ ہوا یوں تھا کہ ہائی کورٹ میں گوتم کھیترپال نامی ایک ایڈوکیٹ نے 159 لوگوں کی فہرست پیش کرکے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حکومت کو انہیں گرفتارکرکے کوارنٹائن کرنے کا حکم جاری کرے، کیونکہ یہ لوگ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک ہونے دہلی گئے تھے۔ عدالت نے حکم بھی دے دیا۔ اس کے بعد حکومت نے اس فہرست میں شامل لوگوں کی جب تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ان میں 108 افراد غیرمسلم ہیں۔


یہ دوسری خبر یہاں اس لیے پیش کی گئی کہ وزارت صحت نے جن 30 فیصد کورونا متاثرین کا ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ لَو اگروال صاحب نے یہ تو بتا دیا کہ تبلیغی جماعت سے متعلق کورونا مریضوں کی کیا تعداد ہے، مگر کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ ان میں ان کی کتنی تعداد ہے جو مارچ میں دہلی تو ضرور گئے تھے لیکن تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک ہونا تو دور وہ اس کے بارے میں جانتے تک نہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے نہیں ہے، لیکن چونکہ وہ کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں، ا س لیے انہیں تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا گیا۔

سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو اس کا جواب اس اصول میں پوشیدہ ہے کہ ایک شور دبانے کے لیے اس سے زیادہ شور پیدا کر دیا جائے۔ کورونا کی روک تھام کے لیے حکومت کو اپنی تساہلی، لاپرواہی اور نااہلی پر اٹھنے والی آواز کی شدت کم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ عوام کے سامنے ہندو و مسلمان کا لاؤڈ اسپیکر خوب زور سے بجایا جائے۔ ابھی اس کا پالیسی پروگرام ترتیب دیا جا رہا تھا کہ پہلے لاک ڈاؤن کے دوران مہاجرمزدوروں کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ نوٹ بندی کی طرح ہٹلرانہ انداز میں لاگو کیا گیا دیش بندی اسی انداز میں ناکام ہوا جس طرح تالی وتھالی کی اپیل ناکام ہوئی تھی۔ ایسے میں حکومت کے ہاتھ میں تبلیغی جماعت کا موضوع آگیا، جس کو پرموٹ کرنے میں گودی میڈیا نے اپنا پورا زور صرف کر دیا۔


لیکن اب اسے حکومت کی بدنصیبی کہیں یا ملک کی خوش قسمتی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود کورونا نے ہندو-مسلمان بننے سے انکار کر دیا۔ ہندو-مسلم منافرت پھیلانے کے خلاف عدالتوں میں چارہ جوئی کے بعد گودی میڈیا کا گلا سوکھنے لگا، مہاراشٹر میں گودی میڈیا کا ایک رپورٹر راہل ککلرنی گرفتارکرلیا گیا۔ گوکہ اس کی گرفتاری ایک غلط خبر دکھانے کے جرم میں ہوئی تھی، مگر اس نے گودی میڈیا کے زہر اگلنے والے اینکروں کو ایک میسیج ضرور دے دیا کہ اب حالات کا رخ بدلنے والا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کی ضرورت اب بھی باقی تھی جس کو پورا کرنے کا بیڑا گودی میڈیا کے ساتھ وزارت صحت نے بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھالیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابتداء سے ہی وزارت صحت حکومت کی اس پالیسی سے چمٹا ہوا ہے کہ کورونا کے ذکر کے ساتھ وہ تبلیغی جماعت کا ذکر ضروری سمجھتا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ تبلیغی جماعت کے تعلق سے جس طرح کے اعداد وشمار وزرات صحت پیش کر رہا ہے، کیا اسی طرح کے اعداد وشمار وہ 9 سے 19 مارچ کے دوران ملک کے دیگر حصوں میں ہوئے 8 بڑے ہندو تہواروں و مندروں کی تقاریب میں جمع لوگوں کے متعلق پیش کرسکتا ہے؟ کیا اس کے پاس اس کی کوئی معلومات نہیں ہے کہ ترویند پورم کے اٹوکل پونگل کی تقریب میں کتنے لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوئے تھے؟ کیا وزارت صحت اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا کہ مہاراشٹر کے شولا پور میں جس مذہبی تقریب کے انعقاد کے وقت ہندوعقیدت مندوں نے پولیس کو مارا تھا، اس میں کتنے لوگ کورونا کے پازیٹو پائے گئے ہیں؟


ظاہر ہے کہ ان کے جوابات وزارت صحت نہیں دے گا کیونکہ یہ جواب دینے کی صوررت میں یہ کراس سوال بھی پیدا ہوگا کہ پھر تالیوں، تھالیوں اور چراغاں کرنے کی اپیل کرنے والے پردھان سیوک کیا کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نہ تو پردھان سیوک کے پاس ہے اور نہ ہی وزارت صحت کے پاس۔ اس لیے ملک کے عوام کو ہندو-مسلمان کے نشے میں ہی مست رکھنا حکومت کے لیے ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 19 Apr 2020, 7:11 PM