گہلوت حکومت کا یہ قدم اچھا تو ہے لیکن... سہیل انجم

مذکورہ فیصلہ یقیناً انصاف کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی پہلو خان کے اہل خانہ کے لیے باعث اطمینان ہے۔ ان کو اور دوسرے انصاف پسند طبقات کو بھی اس وقت اطمینان نصیب ہوگا جب پہلو خان کے قاتلوں کو سزا ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

پہلو خان قتل کیس میں تمام چھ ملزموں کا بری کیا جانا یقیناً راجستھان کی گہلوت حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک ایسے معاملے میں جو آئینے کی مانند بالکل شفاف تھا ثبوتوں کے فقدان میں ملزموں کو شبہے کا فائدہ دے دینا اور انھیں بری کر دینا بادی النظر میں قرین انصاف نہیں ہے۔ لیکن عدالت بھی کیا کرے۔ جب پولس صحیح ڈھنگ سے جانچ نہ کرے اور ثبوتوں کو ریکارڈ پر نہ لائے اور جان بوجھ کر اس میں خامیاں چھوڑ دے تو پھر ایسے ہی فیصلے سنائے جاتے ہیں۔

سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں سنایا جانے والا فیصلہ بھی ایک ایسا ہی فیصلہ تھا۔ اس کیس میں بھی پولس نے جان بوجھ کر حقائق کو پوشیدہ رکھا تھا جس کی وجہ سے فاضل جج کو کہنا پڑا کہ ایسی دہشت گردانہ کارروائی کرنے والے مجرمین بری کیے جا رہے ہیں اور ان کو کوئی سزا نہیں مل رہی ہے۔ یعنی جج کو معلوم تھا کہ جرم انھیں لوگوں نے کیا ہے لیکن چونکہ اس کے ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے عدالت کو ملزموں کو رہا کر دینا پڑا۔ اس سے پہلے بھی کچھ اسی قسم کے اور بھی فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔


ہمیں عدالتوں کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں پولس کی کارکردگی پر جتنا شبہ کیا جائے اتنا کم ہے۔ استغاثہ کیسا کیس بناتا ہے اور ثبوتوں کو کس طرح اکٹھا کرکے انھیں عدالت کے سامنے پیش کرتا ہے، فیصلے کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ متعدد معاملات میں عدالتیں بھی خلاف توقع فیصلے سنانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ نچلی عدالتیں من پسند فیصلے بھی سناتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ عدلیے کے لیے اچھی بات نہیں۔

پہلو خان قتل کیس میں بھی فاضل جج نے ثبوتوں کو مناسب انداز میں اکٹھا نہ کیے جانے پر اشاروں میں اظہار افسوس کیا ہے۔ لیکن یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ اس فیصلے نے انصاف پسند طبقات کو مایوس کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے ریاستی حکومت کو بھی نشانۂ تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ اسے اسی وقت چوکنّا ہو جانا چاہیے تھا جب پولس نے مرحوم پہلو خان اور ان کے بیٹوں پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس قائم کیا تھا۔


اس وقت وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس کیس کی از سر نو جانچ کرائی جائے گی۔ ان کو اسی وقت نئے سرے سے جانچ کا حکم دے دینا چاہیے تھا۔ اگر انھوں نے ایسا کیا ہوتا تو ممکن ہے کہ پولس دوسری رپورٹ عدالت میں پیش کرتی اور عدالت کا فیصلہ کچھ اور آتا۔ لیکن بہر حال اب ان کی حکومت نے اس معاملے کی از سر نو جانچ کا حکم دے دیا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔

لیکن وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ جن پولس افسران نے اس سے قبل کیس کی جانچ کی ان سے باز پرس کریں اور ان سے پوچھیں کہ جانچ میں اتنی خامیاں کیوں چھوڑ دی گئیں۔ عدالت نے جن جن خامیوں کا ذکر کیا ہے ان کی ایک فہرست بنائی جانی چاہیے اور اب جن لوگوں کو جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ان کو وہ فہرست دی جانی چاہیے اور ان کو ان خامیوں کو دور کرنے کا حکم بھی دینا چاہیے۔


اس کے علاوہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سابقہ جانچ میں جو پولس افسران شامل تھے ان کو اس کی سزا بھی دی جائے۔ کیونکہ عدالتی فیصلے کے متن سے ایسا لگتا ہے کہ پولس والوں نے جان بوجھ کر ڈھیلی ڈھالی جانچ کی اور اس لیے اس میں خامیاں چھوڑ دی گئیں تاکہ عدالت ملزموں کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ایک بار ایسے پولس والوں کو سزا ہو جائے اور ان کی گوشمالی کر دی جائے تو آگے کے لیے پولس والے ہوشیار ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ وہ جان بوجھ کر خامیاں نہ چھوڑیں۔

حالانکہ پولس حکومت کے تحت آتی ہے اور اب کانگریس کی حکومت ہے تو پولس کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اب ریاست میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہے جانچ کرے اور ملزموں کو بچانے کی کوشش کرے۔ اس کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ کانگریس کی حکومت ہے اور اس حکومت میں وہ سب کچھ نہیں ہوگا جو بی جے پی حکومت میں ہوتا رہا ہے۔


مذکورہ فیصلہ یقیناً انصاف کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی پہلو خان کے اہل خانہ کے لیے باعث اطمینان ہے۔ ان کو اور دوسرے انصاف پسند طبقات کو بھی اس وقت اطمینان نصیب ہوگا جب پہلو خان کے قاتلوں کو سزا ہوگی۔

البتہ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ عدالت نے اس ویڈیو کو ثبوت ماننے سے کیوں انکار کر دیا جس کو پوری دنیا نے دیکھا اور یہ دیکھا کہ کس طرح لوگ دوڑا دوڑا کر پہلو خان کی پٹائی کر رہے تھے۔ اس نے وہ فوٹیج بھی ثبوت ماننے سے انکار کر دیا جو ایک نیوز چینل کی جانب سے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ وہ ایک اسٹنگ آپریشن تھا جس میں ملزموں نے اپنا جرم فخریہ انداز میں قبول کیا ہے۔


بہر حال اشوک گہلوت حکومت نے اس معاملے کی دوبارہ جانچ کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ اس سے انصاف کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جانچ کرنے والے افسران پر یہ باور کر دیا جائے کہ جانچ صحیح ڈھنگ سے ہونی چاہیے اور حقیقی مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ہر حال میں ملنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Aug 2019, 8:10 PM