راہل گاندھی کے ’نیائے‘ کے آگے مودی کا راشٹرواد کُند
اس اسکیم پر تقریباً 3لاکھ 60 ہزار کروڑ خرچ آئے گا، یہ ایک بڑی رقم ہے لیکن بڑے بڑے دھننا سیٹھ جو کھربوں روپیہ لے کر بھاگ گئے ہیں اور بینکوں نے جتنا قرض ان کا معاف کیا ہے اس کے مقابلہ یہ حقیر رقم ہے۔

مجوزہ پارلیمانی الیکشن میں 5 سال تک محض لفاظی اور ہر ممکن طریقہ سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششوں کا منطقی انجام بی جے پی کے سپہ سالاروں کو دکھایی دینے لگا ہے، ٹی وی چینلوں پر فرضی سروے کے ذریعہ بھلے ہی بی جے پی خاص کر مودی جی کے نا قابل تسخیر ہونے کا بھرم پھیلایا جا رہا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے اپنے اندرونی سروے کے مطابق کسی بھی صورت میں بی جے پی 160 سیٹوں سے زیادہ حاصل کرنے نہیں جا رہی ہے۔
معاشی محاذ پر مودی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے سب سے اہم مسئلہ روزگار ہے اس محاذ پر ناکامی کے خطرہ کا احساس مودی حکومت کو ہے اسی وجہ سے اس نے بیروزگاری کے اعداد و شمار منظرعام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا لیکن حقیقت چھپ نہیں سکی اور یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ بیروزگاری کی سطح گزشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، معاشی محاذ پر بربادی میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، نوٹ بندی کا احمقانہ فیصلہ اسی طرح جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروباریوں کو برباد کر دیا جو روزگار فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے، کسانوں کی حالت بھی بد سے بد تر ہو گئی ہے ان میں خود کشی کی شرح میں چارگنا اضافہ ہوا ہے۔
مودی جی اپنی حکومت کی ان تمام ناکامیوں کو راشٹرواد، پاکستان اور ایسے ہی جذباتی معاملوں کو اٹھا کر چھپانا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن خاص کر کانگریس انھیں اس کا موقع نہیں دے رہی ہے، صدر کانگریس راہل گاندھی اور نو منتخب جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ان حقیقی معاملات کو نہ صرف عوامی بحث کا موضوع بنا دیا ہے بلکہ انتخابی موضوع بھی بنا دیا، خاص کر راہل گاندھی نے ’نیاۓ‘ اسکیم کا اعلان کر کے بی جے پی کے ہاتھ سے تمام مدے چھین لیے ہیں، اس اسکیم کے تحت ملک کے سب سے غریب 20 فیصدی عوام کو ہر ماہ 6 ہزار روپیہ دیا جائے گا اور ان کی آمدنی 12 ہزار روپیہ فی مہینہ کر دی جائے گی، اس اسکیم سے نہ صرف ان خاندانوں کو خط افلاس سے اوپر اٹھنے میں مدد ملے گی بلکہ ان کی قوت خرید بڑھنے سے پیداوار بڑھے گی جب پیداوار بڑھے گی تو روزگار کے مواقعہ بڑھیں گے اس طرح یہ اسکیم نہ صرف انسداد غربت میں معاون ہوگی بلکہ اس سے روزگار کے مواقعہ بھی بڑھیںگے۔
اس اسکیم پر تقریباً تین لاکھ ساٹھ ہزار کروڑ روپیہ خرچ آئے گا، یقیناً یہ ایک بڑی رقم ہے لیکن بڑے بڑے دھننا سیٹھ جو کھربوں روپیہ لے کر بھاگ گئے ہیں اور بنکوں نے ان کا جتنا قرض معاف کیا ہے اس کے مقابلہ یہ ایک حقیر رقم ہے۔ اگر حکومت تھوڑا سا ٹیکس ڈھانچہ وسیع کر دے اور اپنے اخراجات کچھ کم کر دے تو یہ رقم بڑی نہیں ہوگی، واضح ہو کہ مودی جی کے غیر ملکی دوروں اور ان کی پبلسٹی پر قریب 70 ارب روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے، ان مدُوں میں کٹوتی کر کے حکومت مطلوبہ رقم آسانی سے جمع کر لیگی- اس کے علاوہ کسانوں کے فلاح و بہبود نیز تعلیم اور علاج کے معاملہ میں بھی کانگریس نے کچھ انقلابی اسکیمیں لانے کا اشارہ دیا ہے یعنی اب الیکشن صرف گوڈسے اور گاندھی کے خوابوں کے ہندستان کے موضوع پر ہی نہیں لڑا جائے گا بلکہ غربت، بیروزگاری، کسانوں کے مسائل، تعلیم اور علاج جیسے بنیادی موضوعات بنام جارحانہ قوم پرستی ہندو، مسلمان، پاکستان، شمشان اور قبرستان جیسے موضوعات کی بنیاد پر لڑا جائے گا، جسے ایک مثبت اور بنیادی تبدیلی کہا جا سکتا ہے اب تک مودی جی اور بی جے پی انتخابی ایجنڈا طے کرتے تھے اب راہل اور پرینکا انتخابی ایجنڈا طے کر رہے ہیں۔
وہ جو کہاوت ہے کہ چور چوری سے جا سکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، یہی حال ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے، الیکشن کمیشن کی سخت ہدایت کے باوجود کہ فوج اور فوج کے کارناموں کو انتخابی موضوع نہ بنایا جائے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ہر تقریر میں بالاکوٹ پر حملہ، سرجیکل اسٹرائیک جیسے موضوعات کو ہی اپنی تقریر کا خاص عنوان بناتے ہیں، یہی نہیں وہ اپوزیشن خاص کر کانگریس اور اس کے لیڈروں کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان لگانے میں شرم نہیں محسوس کرتے، وہ صرف خود کو محب وطن اور وطن پرستی کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں، باقی تمام مخالفین کو وطن دشمن، غدار، پاکستان کا ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا کہنے میں ذرّہ برابر اپنے عہدہ اور وقار کا دھیان نہیں رکھتے، دراصل پاکستان کو انتخابی موضوع بنا کر وہ ملک میں خطرناک حد کو پہنچ چکے پولرائزیشن کو مزید دھار دے کر اپنی بازی جیتنا چاہتے ہیں، انھیں ملک کے سماجی تانے بانے کو بچائے رکھنے کی ذرا سی بھی فکر نہیں ہے- یہی نہیں اب تو فوج کے سبکدوش افسران سے ہی نہیں بلکہ سرکاری افسران سے بھی پاکستان کو سبق سکھانے اور ایسے ہی بیانات کے ذریعہ پولرائزیشن کی سیاست کی جا رہی ہے، فوج کو سیاسی معاملات میں کھینچنے کے بداثرات سے ہم سب واقف ہیں، یہ جمہوریت کے لئے ایک خطرناک کھیل ہے اگلی حکومت کو اس کے تدارک کے لئے قانون بنانے پر غور کرنا چاہیے۔
مودی جی نے یہیں پر بس نہیں کیا، وہ واہ وہی لوٹنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں ملک کے دفاعی راز بھی اجاگر کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے، جس کا سب سے بڑا ثبوت ہے خلا سے خلا میں مار کرنے والے میزائل کے کامیاب ٹیسٹ کو بہت ہی ڈرامائی انداز میں قوم کو بتانا۔ حالانکہ یہ پروجیکٹ منموہن سنگھ کے دور میں شروع ہوا تھا اور تین سال بعد کامیابی سے بھی ہمکنار ہوگیا تھا لیکن صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد ہندوستان نے اس پر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا کیونکہ یہ ایک دفاعی راز تھا نیز ہندوستان کی شروع سے ہی پالیسی رہی ہے کہ خلا کو اسلحوں کی دوڑ سے پاک رکھا جائے، مودی جی نے سیاسی اغراض کے لئے ہندوستان کی دفاعی صلاحیت کا راز بھی فاش کر دیا اور کانگریس حکومت کے دور میں شروع کیے گئے پروگرام کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں لینے کی بچکانہ کوشش کی ہے، یہی حرکت اٹل جی نے پوکھرن دو کے ذریعہ کی تھی اندرا گاندھی کے وقت میں ایٹمی دھماکہ کر کے ہندوستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی اور یہ اعلان کیا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور ہندوستان کبھی ایٹم بم نہیں بنائیگا، یہی نہیں اندرا گاندھی اور اس کے بعد راجیو گاندھی نے دنیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک رکھنے اور نیوکلیائی ترک اسلحہ کی مہم بھی چلائی، جبکہ اٹل جی نے یہ پالیسی بدل دی، نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کو سخت معاشی پابندیاں جھیلنا پڑیں جس سے اس کی ترقی کم سے کم دس سال کے لئے پچھڑ گئی، اس سے بھی بڑی بات یہ کہ ہندوستان کے ایٹمی دھماکہ کے بعد پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکہ کر کے فوجی طاقت میں ہندوستان سے کئی گنا پیچھے رہنے کی حالت ختم کر کے ایٹمی اسلحہ میں برابری حاصل کرلی اب ہندوستان دو طرف سے ایٹمی طاقت والے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے ایک طرف چین ہے دوسری طرف پاکستان۔ چین اور پاکستان کی دوستی ہر معنوں میں ہندوستان کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ کہنے کا مطلب قلیل مدتی اور سیاسی اغراض پر مبنی دفاعی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے، اٹل جی ایک سیاست داں ہی نہیں دور اندیش مدبر بھی تھے انہوں نے ایٹمی دھماکہ کو سیاسی فائدہ کے لئے نہیں استمعال کیا جبکہ مودی تنگ نظرتنگ، تنگ ذہن سیاست دان ہیں اور ہمہ وقت سیاسی فائدہ اٹھانے اور مخالفین کو بدنام کرنے کی مہم میں لگے رہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Apr 2019, 1:09 PM