مودی کو ’بندی‘ میڈیا چاہیے، آزاد میڈیا نہیں... سعید نقوی

مودی کا میڈیا کے ساتھ ایک محدود تجربہ ہے۔ شروعاتی دور میں ان کا سامنا ہوسٹائل میڈیا سے ہوا جس نے ان پر 2002 کے گجرات قتل عام کا الزام لگایا۔ بعد میں ان کی کور ٹیم نے مودی کو ایک ’برانڈ‘ بنا دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سعید نقوی

یہ شکایت نہیں، حالات کی عکاسی ہے۔ میرے 50 سالہ صحافتی زندگی میں نریندر مودی ہی ایسے وزیر اعظم ہیں جن سے میں کبھی نہیں ملا۔ گزشتہ سالوں میں جب بھی ملاقات کی کوشش کی، آر ایس ایس کے ونے سہسربدھے کے پاس بھیج دیا گیا۔ بہت عاجزی کے ساتھ وہ یہ پیغام دینے میں اہل تھے کہ ’’مودی کے ساتھ ملاقات کے لیے انتظام نہیں ہو سکتا۔‘‘

کبھی صحافتی مزاح کے لیے دنیا کا پسندیدہ ٹھکانہ رہی نئی دہلی جانکاریوں سے سب سے کم واقف راجدھانیوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ خبروں کے لحاظ سے ممبئی، کولکاتا، چنئی، لکھنؤ لافانی ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کی کمی میں اینکر اور صحافی ضمنی انتخاب، ریاستی انتخاب، اتحاد یا مہا گٹھ بندھن، ذات یا فرقہ اور دیگر مسائل پر قیاس آرائیوں کی گرفت میں پھنس جاتے ہیں۔


افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ، جو 18ویں سال میں داخل ہو چکی ہے، کے بارے میں ٹی وی پر کوئی بحث دکھا دیجیے یا پھر پرنٹ میں کوئی اچھا مضمون۔ صبر کے ساتھ اس وقت تک انتظار کیجیے جب تک ’انڈین ایکسپریس‘، ’دی اکونومسٹ‘ کا ایڈیٹوریل اپنے یہاں از سر نو شائع نہیں کرتا، جو ہمیں ہمارے پیچھے والے حصے میں تازہ حالات کے بارے میں تفصیل سے سمجھاتا ہے۔ افغانستان استثنا نہیں ہے۔ کبھی نیپال کے ہندو راشٹر کے بارے میں بی بی سی، سی این این، نیو یارک ٹائمز اور رائٹر کے ذریعہ سمجھایا گیا۔

مرغوں کی لڑائیوں کے لیے جوشیلے اکھاڑوں والے نیوز چینلوں کے افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش، مالدیب، سری لنکا، میانمار، چین، روس، برطانیہ، امریکہ سمیت کہیں بھی بیورو نہیں ہے۔ صرف ایک ہی فارمولہ ہے... ’اُدھر راقب اِدھر ہم بلائے جاتے ہیں، کہ دانہ ڈال کے مرغے لڑائے جاتے ہیں۔‘


وزیر اعظم نے مئی 2014 میں لوک سبھا میں پہلے ہی تقریر میں ملک کو ’غلامی‘ یا ذہنی غلامی سے آزاد کرانے کی بات کہی تھی۔ اگر وہ اپنے الفاظ کے برابر ہی سچے ہیں، تو انھیں فوراً غیر ملکی میڈیا کی بالادستی پر دھیان دینا چاہیے۔ گاندھی جی سبھی کے لیے کھڑکیاں کھلی رکھتے تھے تاکہ سبھی طرف سے ہوا کی آمد و رفت ہو سکے۔ وزیر اعظم راشٹرواد کی قسمیں کھاتے ہیں... میں اسے ’سوابھیمان‘ کہتا ہوں۔ بین الاقوامی معاملوں کی کوریج میں جب ہندوستان کا حکمراں طبقہ صرف اینگلو-امریکن میڈیا کا ہی قیدی ہو، تو دونوں ہی (راشٹرواد اور سوابھیمان) زخمی ہو جاتے ہیں۔

روس، چین اور ایران لبرل جمہوریت نہیں ہیں، اس کے باوجود ان کے دنیا بھر میں بیورو ہیں۔ جب مغربی میڈیا ان کے خلاف کہانی تیار کرتا ہے، وہ اثردار طریقے سے مداخلت کرتے ہیں۔ 2019 کے انتخابات میں عالمی میڈیا ’دی ڈیوائیڈر ان چیف‘ کے خلاف اتر آیا تھا۔ مودی کے ساتھیوں نے اسے چیلنج دینے کی سوچی؟ کوشش کی ہوتی تو پتہ چلتا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پاس اپنی رسائی سے آگے سامعین/ناظرین تک پہنچنے کے وسائل نہیں ہیں۔


مودی کا میڈیا کے ساتھ محدود تجربہ ہے۔ شروعات میں ان کا سامنا ہوسٹائل میڈیا سے ہوا، جس نے ان پر 2002 کے گجرات قتل عام کا الزام لگایا۔ بعد میں ان کی کور ٹیم نے اے پی سی او جیسے گروپوں، بین الاقوامی مشیر سے ان پٹ لے کر برانڈ مودی بنانے میں مدد لی۔ برانڈنگ کے عمل میں معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت نہیں تھی، انھیں معلوم تھا کہ وہ مکمل طور پر تباہ حال ہے۔

ان کے مارکیٹروں نے صلاح دی کہ سارا دھیان ایسے موضوعات پر لگائیں جس میں بہت زیادہ جذباتی طاقت ہو۔ پاکستان کو نفرت آمیز شے کی شکل میں سامنے رکھا گیا اور بالاکوٹ میں اس پر برسرعام کوڑے برسائے گئے، مودی کے لفظوں نے ایک ساؤنڈ افیکٹ پیدا کیا جس نے ان کا ساتھ دیا۔ ’گھر میں گھس کے مارا‘ کسی غنڈے کی زبان ہے، پھر بھی کیا کیجیے رابن ہڈ بھی تو بہت مقبول ڈاکو تھا۔


کیا مودی کو میڈیا کی ضرورت ہے؟ بالکل ہے۔ میڈیا کے بغیر مودی پروجیکٹ تو مردہ پیدا ہوئے بچے جیسا ہے۔ انھیں ’بندی‘ میڈیا چاہیے نہ کہ تنقید کرنے والی آزاد میڈیا۔ یہ دو درجات کی میڈیا پالیسی پر زور دیتا ہے۔ مودی کو میڈیا کی جانچ پڑتال سے دور رکھا جائے گا۔ وہ صرف کور ٹیم کے ذریعہ پیش کردہ چیزیں بتائیں گے تاکہ کرشمے کو بڑھا سکیں اور خاص اہمیت کے کام کو انجام دے سکیں۔

میڈیا سے آمنا سامنا ضروری ہوگا تو وہ وزارت خارجہ کے ذمہ ہوگا۔ ورنہ فلٹر نہیں کی گئی چیزیں متبادل میڈیا کو کافی سامان فراہم کر دے گا۔ میڈیا کے ساتھ بات چیت کے رشتے عام طور پر ونٹلیشن کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں ایک غیر مضر معلوم ہونے والی کہانی سناتا ہوں جس نے غیر ارادی طور پر ایک قومی مقصد کو پورا کیا تھا۔


بات اس وقت کی ہے جب مرار جی دیسائی وزیر اعظم تھے۔ اس وقت میرے ایک ساتھی، وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری تھے، اور وزیر اعظم کی ٹیم میں تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھے ٹوکا اور اپنے کمرے میں کافی کے لیے مدعو کیا۔ جیسلمیر اور باڑمیر کے ان کے شاہی دوستوں نے کچھ تصویریں بھیجی تھیں) جو انھوں نے مجھے دکھائی (جن میں ائیر فورس کے رَن وے پر سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کے کچھ پرائیویٹ جیٹ اتر رہے تھے۔ ان میں نقاب سے ڈھکے باز (فالکن) اور ریگستان میں عالیشان ٹینٹ لگانے کے لیے سامان تھے۔ ان شیخوں نے جیسلمیر اور باڑمیر کے آس پاس کے ریگستان کو گوڈاون (دی گریٹ انڈین بسٹرڈ) کے شکار کے لیے دنیا کی سب سے بہترین جگہ کی شکل میں چنا تھا۔

ماہرین ماحولیات نے پایا کی گوڈاون کی تعداد گر رہی ہے۔ پی ایم کی ٹیم میں شامل میرے ساتھی نے کسی طرح سے راجستھان میں ضلع افسران کا تحریری حکم حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اسٹوری پہلے صفحہ پر شائع ہوئی۔ وزارت خارجہ کے افسر شکار کے مقام تک گئے اور انھیں وہاں سے سامان سمیٹنے کی گزارش کی۔ گوڈاون کو بچا لیا گیا۔


یہ ایک ایماندار اعتراض کنندہ کی وجہ سے ہو پایا۔ ماحولیات سے محبت کرنے والوں کو انھیں شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ واٹر گیٹ کی خبر دینے والا آخر کار سب کے سامنے آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس محافظ کو سامنے لانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ وہ آج بیمار ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس اطلاع دینے والے کی آواز چلی گئی ہے۔ اس کا نام ہے ونود گروور، جو کبھی انکارا، ہیگ اور نیروبی میں ہمارے سفیر تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Jun 2019, 11:10 AM