مودی کو دیکھو، مندی نہ دیکھو: معاشی بدحالی پر دیش بھکتی کا نشہ پلاتا قومی میڈیا... اعظم شہاب

قومی میڈیا کو بس غرض ہے تو صرف مودی کو ملک کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا عظیم حکمراں قرار دینے سے۔ اسےغرض ہے تو اس فرضی دیش بھکتی سے جس کے نشے میں مودی حکومت کی ہر ناعاقبت اندیشی ملک کے مفاد میں قرار پائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

خطرہ وہ ہے جس کی آہٹ محسوس کی جائے، لیکن جب وہ دستک بن جائے اور پھر بھی آنکھیں بند ہی رکھی جائیں تو اسے ہلاکت و بدبختی کہتے ہیں۔ آج کل یہی کچھ حال ہمارے ملک کے قومی میڈیا کا ہے کہ ایک جانب ملک شدید معاشی بدحالی کی چپیٹ میں ہے اور ہمارے نیوزچینل دیش بھکتی کا نشہ پلانے میں مصروف ہیں۔ کسی نیوزچینل پرمندی سے آنکھیں موند کر مودی کو دیکھنے کا مشورہ دیا جارہا ہے تو کسی پر معاشی بدحالی کی تمام تر ذمہ داری کانگریس کے سر منڈھی جارہی ہے۔ گویا ان نیوز چینلوں کے نزدیک معیشت کی تباہی اور ملک کی بدحالی مودی کی شخصیت کے آگے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس کی ذمہ داری اس کانگریس پر عائد ہوتی ہے جو گزشتہ پانچ سال سے اپوزیشن میں ہے اور اس کی کسی فریاد، کسی احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

دراصل ہمارے قومی میڈیا کو ایسی کوئی بھی چیز منظور نہیں ہے جو مودی حکومت کی قابلیت واہلیت پر کوئی سوالیہ نشان لگائے۔ مندی آتی ہے تو آئے، لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں تو ہوں، ملک کی صنعتیں تباہ ہو رہی ہوں تو ہوں، لوگوں پر بھکمری کی نوبت آگئی ہے تو آجائے، ملک انارکی کا شکار ہوتا ہے تو ہوجائے، کشمیر میں کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو ہو ہمارے قومی میڈیا کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسے بس غرض ہے تو صرف مودی کو ملک کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا عظیم ترین حکمراں قرار دینے سے۔ اسے غرض ہے تو اس فرضی دیش بھکتی سے جس کے نشے میں مودی حکومت کی ہر ناعاقبت اندیشی ملک کے مفاد میں قرار پائے۔ لیکن حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب ایک نیوز چینل ملک کی معیشت کے پانچویں مقام سے ساتویں مقام پر کھسک جانے کو مودی کا کرشمہ قرار دیتا ہے۔ تف ہے اس چاپلوسی اور حکومت نوازی کی کہ صاف اور صریح ناکامی بھی کامیابی قرار دی جانی لگے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ معاشی بدحالی کی ذمہ دار پانچ سال قبل کی کانگریس حکومت ہے تو پچھلے پانچ سالوں سے مودی اینڈ کمپنی نے اسے سدھارنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیوں حکومت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھنے والے معاشی سیکٹر کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جارہا ہے؟ ملک کے بیشتر ایئرپورٹ اڈانی کو کیوں سپرد کیے گئے؟ بی ایس این ایل، ایم ٹی این ایل، ریلوے، آرڈیننس فیکٹری ڈپارٹمنٹ کا پرائیویٹائزیشن کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا یہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کی سمت قدم ہیں یا پھر اسے مزید کمزور بنانے کی ایک منصوبہ بند کوشش؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کیوں لایا گیا جس کے بارے میں ابتداء سے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ یہ ملک کی معیشت کی کمر توڑ دے گی؟ ظاہر ہے اس کا جواب نہ تو مودی حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی ہمارے قومی میڈیا کے پاس، اس لئے لوگوں کی توجہ آرٹیکل 370، تین طلاق، دیش بھکتی، پاکستان اور کانگریس کی جانب موڑی جا رہی ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اور میڈیا کی اس کوشش سے ملک کی معیشت سدھر جائے گی؟ تو اس جواب سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے جو مودی حکومت کے پے رول پر ہیں۔ اس کی سزا تو انہیں بھگتنی ہوگی جن کا انحصار ملک کی معیشت پر ہے۔ بی جے پی کی معیشت پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑے گا اور بدقسمتی سے ہمارے قومی میڈیا کا انحصار بی جے پی کی معیشت پر ہے جس کا مرکزی دفتر ہی ہزاروں کروڑ کی لاگت کا ہے۔

دراصل چین سے مقابلہ کرنے کے زعم میں ہم خود چینی پروڈکٹ کی طرح یوز اینڈ تھرو ہوچکے ہیں۔ جب بی جے پی کو ہماری ضرورت تھی تو اس نے ہمیں اچھے دنوں کے سپنے دکھائے اور جب بی جے پی کا سپنا ساکار ہوا تو ہمیں دیش بھکتی کا نشہ پلایا جارہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ خطرہ دیکھ کر اس کو روکنے کی بروقت تدبیر کرنے کے بجائے اپنا سر دیش بھکتی کے ریت میں چھپا دیا جائے تو خطرہ ٹل جائے گا، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس ضمن میں مہاراشٹر کانگریس کے ترجمان سچن ساونت کا یہ بیان بہت نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت بڑے مشکل دور میں جا رہی ہے، شیئر بازار کی گراوٹ کی وجہ سے لاکھوں سرامایہ کاروں کے پیسے ڈوب گئے ہیں، آٹو موبائیل سیکٹر نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے میں مودی حکومت مسلسل رپورٹوں کو دبا کر اور جھوٹے اعداد وشمار پیش کرکے ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔


آج کل پورے ملک کا رخ پی چدمبرم کی گرفتاری اور ارون جیٹلی کے انتقال کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ قومی میڈیا میں پی چدمبرم کو اتنا بڑا مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے گویا اگر ان کی گرفتاری نہیں ہوئی ہوتی تو دیش تباہ ہوگیا ہوتا۔ وہیں ارون جیٹلی کے انتقال کو دیش کا بہت بڑا نقصان ثابت کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ بات پورے ملک کو معلوم ہے کہ پی چدمبرم کی گرفتاری کانگریس کو سبق سکھانے اور موٹے بھائی کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے اور ارون جیٹلی کا دنیا سے چلے جانا بی جے پی کے لئے نقصان تو ہوسکتا ہے، دیش کے لئے ہرگز نہیں۔ کیونکہ جیٹلی جی کا پورا مدت کار دیش کے لئے گھاتک اور بی جے پی کے لئے وردان کا رہا ہے۔ انہوں نے زندگی بھر مودی حکومت کی ناعاقبت اندیشی اورغلط فیصلوں کو جائز ٹھہرایا اور ملک پر ایک ایسا کالا ٹیکس کا قانون نافذ کیا جو تین سوبار کی ترمیم کے باوجود ابھی تک اس قابل نہیں ہوسکا ہے کہ اسے ملک کے مفاد میں قرار دیا جائے۔

سچائی تو یہ ہے کہ مودی اینڈ کمپنی کے پاس ملک کی تباہ ہوتی معیشت کو سنبھالنے کی نہ تو اہلیت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ اگر ہوتی تو بجائے میڈیا پر نوٹ بندی و جی ایس ٹی ملک کے مفاد میں ثابت کرنے کے اس کے ترجمان سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخزانہ پر لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے۔ اس لئے یہ کہنے میں اب کوئی تردد نہیں ہونی چاہیے کہ اس ملک کی معیشت مزید پستی میں جائے گی اور میڈیا اسے معیشت کی جڑ مضبوط ہونا قرار دے گا۔ لیکن اس ملک کی معاشی تاریخ میں اس بات کا ذکر ضرور موجود رہے گا کہ جب ملک میں ہاہاکار مچا ہوا تھا، ملک کا وزیراعظم دوسرے ممالک میں ایوارڈ وصول کرتے ہوئے گھوم رہا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Aug 2019, 6:10 PM