مودی جی! یہ پبلک ہے سب جانتی ہے

ملک بھر میں صفائی ملازمین سر پرغلاظت ڈھونے کے لئے مجبورہیں، سیور میں متھین گیس سے دم توڑ رہے ہیں تب کچھ نہیں کیا، ایک دن اچانک صفائی ملازمین کے پاؤں دھو کر ’مخصوص‘ میڈیا میں مہان بن گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

عام طور پر سیاست کا بنیادی مقصد اخلاقیات اور انسانی حقوق کا تحفظ سمجھا جاتا ہے مگر موجودہ وقت میں ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اس شعبے کو ذاتی مفاد، چاپلوسی اورمخالفین سے انتقام تک محدود کر دیا ہے۔ سیاست میں اخلاقیات کا نعرہ تو بڑے زور و شور سے لگایا جاتا ہے اورغریب لوگوں کو گلے لگا کر، پاؤں دھوکر ان کے آنسو بھی پوچھے جاتے ہیں، مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ایسے غریبوں کے جذبات اور عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پسماندہ قوم کی فلاح و بہبود کرکے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگربنیادی مسائل کو پیچھے چھوڑ کر غریب کے پیر دھو کر سیاست کرنا انتہائی کم ظرفی کہا جائے گا، مگرہمارے رہنما شاید زمینی حقیقت سے بے بہرہ ہیں۔

’یہ پبلک ہے سب جانتی ہے‘۔ اب امیر ہو یاغریب سبھی سمجھ چکے ہیں کہ انتخابات سر پر ہیں اور ان حالات میں سیاسی لیڈران کچھ بھی کرسکتے ہیں اگرملک کا وزیراعظم صفائی ملازمین کے پیر دھوتا بھی نظر آجائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔

اس وقت ملک میں بیروزگاری، نفرت، غریبی جیسے بے شمارمسائل ہیں جوملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں انہیں دور کیا جانا بے حد ضروری ہے لیکن حکمراں طبقہ بڑی چالاکی کے ساتھ عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنی روایتی سیاست کے ہی نگاڑے بجانے میں لگا ہوا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے 2014 انتخابات کے وقت جس نئی سیاست کوفروغ دیا گیا وہ اب مزید شدت اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔حالیہ دنوں میں کئی ایسے مسائل پیدا ہوئے جوحکومت کے گلے کی ہڈی بن گئے تھے مگر ایک مسئلے کودبانے کے لئے دوسرے مسئلے کوکھڑا کر دیا گیا اور میڈیا نے عوام کا رخ ایسے موڑ دیا جیسے کہ موجودہ بی جے پی حکومت ہی کام کر رہی ہے اور اس سے پہلے کی حکومتیں ناکارہ تھیں۔ موجودہ وقت میں دھیان بھٹکانے کا جوچلن عام ہوگیا ہے وہ مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

بنیادی مسائل کونظر انداز کرکے علامات کے ذریعہ مسائل سے دھیان بھٹکانے کا فن کوئی وزیراعظم نریندرمودی اور ان کے حواریوں سے سیکھے۔ جب نوٹ بندی کے وقت غریب لوگ شدت کی دھوپ میں بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں دم توڑ رہے تھے تب عوام کا دھیان ہٹانے کے لئے اپنی ضعیف ماں کولائن میں لگا دیا اور ایسا ہی ہوا۔ میڈیا کے ایک بڑے طبقے نے لائن میں کھڑے بھوکے پیاسے لوگوں سے کیمرہ ہٹاکر وزیراعظم کی ماں پرفوکس کردیا۔ جب ملک بھر میں صفائی ملازمین سر پرغلاظت ڈھونے کے لئے مجبورہیں، سیورمیں متھین گیس سے دم توڑ رہے ہیں تب کچھ نہیں کیا، ایک دن اچانک صفائی ملازمین کے پاؤں دھوکر’مخصوص‘ میڈیا میں مہان بن گئے۔

سیاسی مفاد کے لئے تمام سیاستدان علامتوں کا استعمال کرتے ہیں اوریہ کرنا بھی پڑتا ہے۔ لیکن جب کانگریس صدر راہل گاندھی نے درج فہرست ذات کے لوگوں کے گھر جا کر کھانا کھایا اور انہیں احساس کمتری سے باہرنکالنے کی کوشش کی تو بی جے پی کے لیڈروں نے تنقید کی اور اسے سیاسی اسٹنٹ بتایا، مگر کچھ دن بعد ہی بی جے پی صدر امت شاہ اور بی جے پی کے درجنوں لیڈرکئی دنوں تک درج فہرست ذات کے لوگوں کے گھروں میں کھانا کھاتے نظر آئے۔

دریں اثنا دھرم نگری اجین میں’خیرسگالی اسنان‘ کا آئیڈیا لایا گیا۔ جس کمبھ میں سب کے لئے ’اسنان ‘ہوتا ہے وہاں الگ سے خیرسگالی اسنان کا گھاٹ بنا دیا گیا۔ امت شاہ اورشیوراج سنگھ چوہان دلت سنت سماج کے ساتھ اسنان کرنے پہنچ گئے، اس کی جم کرتشہیربھی کی گئی مگر جب سادھوسنتوں نے ہی اس امتیاز کی مخالفت کی تب شیوراج سنگھ نے اپنے ٹوئٹ سے دلت سماج ’ڈلیٹ‘ کر دیا۔ پہلے ٹوئٹ کیا تھا کہ دلت سماج کے عقیدتمندوں کے ساتھ اسنان کیا۔

ملک کے وزیراعظم نے توعلامات اور تصاویر کے استعمال کی انتہا کردی ہے۔ وہ ہروقت سرخیوں میں رہنے کی سوچتے رہتے ہیں۔ مسائل کا تصفیہ خواہ نہ ہو لیکن پاؤں دھوکرسرخیاں بٹورلو۔ کیا آنے والے دنوں میں احترام کا یہی طریقہ ہوگا؟ کیا یہ احترام کی جگہ صفائی ملازمین کی توہین نہیں ہے؟ کیا انہوں نے بھی انہیں ناپسند سمجھا جو پاؤں دھوکرعزت دے رہے ہیں؟۔ کیا آئین نے ہمیں عزت سے زندگی گزارنے کے لئے پاؤں دھونے کا نظام دیاہے؟ کیا ہم لوگوں نے عام احساس سے بھی کام کرنا بند کر دیا ہے؟

ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتا کہ انتخابات کے وقت اصل مسائل سے دھیان بھٹکانے کے لئے یہ سب ہو رہا ہے؟ کیا ہماری سمجھ اس حد تک گرگئی ہے کہ اب اس طرح کے ڈھونگ کو بھی اچھا ماننے لگے ہیں؟۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ عظمت کوبھی ڈھونگ بنا دیا جائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ میڈیا کے ایک طبقے میں وزیراعظم کے چیلے انہیں ’بھگوان‘ نہ بتا دیں۔ ان حالات میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی بیروزگار کے گھر پر کھانا کھا لینے سے بیروزگاری کے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ بیروزگار کو نوکری چاہیے یا وزیراعظم کے ساتھ کھانا کھانے کا موقع؟ ہمیں سوچنا ہوگا۔ ایک تو وزیراعظم کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔اگر ان کا سارا وقت اسنان اور پیر دھونے جیسے کاموں میں جائے گا توملک کے دیگرمسائل کا کیا ہوگا۔ جگہ جگہ صفائی ملازمین وسائل اورتنخواہوں کے مطالبات کے ساتھ اکثردھرنے اورمظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے پیردھونے یا مطالبات پورے کرنے کے لئے کوئی نہیں آتا۔

قومی راجدھانی دہلی میں ہی تقریباً ہر روز دھرنے اور مظاہرے ہو رہے ہیں مگران کے پیر دھونے یا آنسو پوچھنے کوئی نہیں پہنچتا۔ سیورصاف کرنے کے دوران کتنے لوگ گیس کی نذرہوگئے، ان میں سے اکثرکو تو معاوضہ تک نہیں ملتا۔ آج بھی سر پرغلاظت ڈھوئی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کوپاؤں دھونے کی سیاست چھوڑ کر ایسے طبقے کو سماج میں عزت دلانے کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ انہوں نے عزت نہیں دی ہے بلکہ ان کی عزت کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے بڑی چالاکی سے استعمال کیا ہے۔ یہاں پرایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا صفائی ملازمین ناپسندیدہ ہیں کہ پاؤں دھوکر انہیں عزت دی گئی ہے؟ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ اس سے کس کی ’جے جے کار‘ہو رہی ہے؟ جس کا پاؤں دھویا گیا یا جس نے پاؤں دھویا ہے؟

اگر پاؤں دھونا ہی عزت دینا ہے تو پھرملک کے آئین میں ترمیم کرکے پاؤں دھونے اوردھلوانے کاحق جوڑ دیا جانا چاہیے۔ ملک میں معاشی نابرابری بڑھتی جارہی ہے، ایسے حالات میں کیا ملک کے امیر ترین شخص مکیش امبانی، اڈانی یا دوسرا کوئی اورسرمایہ دار اپنے محل میں بلا کر ان غریبوں کے پاﺅں دھوئے گا توغریبوں کا احترام بڑھ جائے گا؟ ہندوستان سے غریبی مٹ جائے گی؟۔ اگرایسا ہے تومیری رائے میں ملک کے سرمایہ داروں کویہ موقع نہیں گنوانا چاہیے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ سیاست اورسرمایہ کاری نفع ونقصان کا نام ہے اوریہ کچھ لوگوں تک ہی محدود ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Mar 2019, 10:10 PM