مودی حکومت اپنی ناکامیاں راشٹرواد کے پیچھے چھپانا چاہتی ہے

راج ٹھاکرے تک یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مودی حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے پلوامہ حملہ کروایا، جمہوریت میں سوال پوچھنا عوام، اپوزیشن اور میڈیا کا حق ہے اور جواب دینا حکومت کا فرض۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

تلخ حقائق کو جذباتی فرقہ وارانہ اور دیگر تمام ترکیبوں سے چھپانے کی لاکھ کوشش کی جائے وہ ابھر کر سامنے آ ہی جاتے ہیں، سنگھ پریوار اس فن میں ہمیشہ سے ماہر رہا ہے مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت کی طاقت اور میڈیا کی سرپرستی بھی اسے ملی ہوئی ہے، اس لئے ہر تلخ حقیقت کے جواب میں راشٹرواد اور ہندوتوا کو سامنے کرکے عوام کی آنکھوں میں نہ صرف دھول جھونکی جاتی ہے بلکہ کمال ہوشیاری سے ووٹوں کی فصل بھی کاٹی جاتی ہے۔

پلوامہ المیہ کا ہی معاملہ لے لیا جائے تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس بہیمانہ حملہ کے پس پشت پاکستان اور وہاں بیٹھے انسانیت دشمن عناصر کا ہاتھ تھا لیکن یہ سوال اٹھنا بھی فطری ہے کہ اتنے حساس اور ہائی سیکورٹی والے علاقہ میں 300 کلو آر ڈی ایکس کیسے پہنچی، 'سی آر پی ایف کے جوانوں کو دہشت گردانہ حملے کے خطرے سے بچانے کے لئے بسوں کے بجائے ہوائی جہاز سے کیوں منتقل نہیں کیا گیا، جب انٹلی جنس بیورو اور دیگر خفیہ اداروں نے حملے کی آگاہی ایک ہفتہ قبل ہی دے دی تھی تو تدارکی اقدام کیوں نہیں کیے گئے، جب بھی کوئی ان تلخ سوالوں کو اٹھاتا ہے اس پر پاکستان حامی ہونے اور پاکستان کی اعانت کرنے کا الزام لگاکر اسے خاموش کر دیا جاتا ہے ۔

ملک کے ممتاز ترین صحافی پریم شنکر جھا ہی نہیں راج ٹھاکرے تک یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مودی حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے یہ حملہ کروایا، بھلے ہی یہ الزام غلط ہو لیکن مندرجہ بالا سوالوں کا تشفی بخش جواب دینا اور لاپروائی کرنے والوں پر کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، جمہوریت اور آئینی نظام میں سوال پوچھنا عوام، حزب اختلاف اور میڈیا کا حق ہے اور ان سب کا جواب دینا حکومت کا فرض ہے۔

مودی حکومت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ تلخ عوامی مسائل اور معاشی محاذ پر اس کی غلط بلکہ احمقانہ پالیسیوں کے فطری نتائج کی طرف عوام جھانکیں تک نہیں، سوال پوچھنا تو درکنار۔ لیکن آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں حقائق کی پردہ پوشی نہ ممکن ہو گئی ہے، مثلاً روزگار کے محاذ پر اپنی ناکامی چھپانے کے لئے مودی حکومت نے روزگار سے متعلق اعداد و شمار نہ ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن یہ حقیقت ظاہر ہو ہی گئی کہ بیروزگاری کی شرح گزشتہ 45 برسوں میں سب سے اونچی سطح یعنی7.5 فیصدی پر پہنچ گئی ہے یہ تو شہری بیروزگاری یعنی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح ہے، سب سے زیادہ روزگار دینے والے زرعی زمرہ میں بھی بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔

این ایس ایس او (NSSO) کی رپورٹ کے مطابق 12-2011 کے مقابلہ میں 18-2017 میں کھیت مزدوروں کی تعداد میں 40 فیصدی کی گراوٹ آئی ہے یہ رپورٹ الیکشن کے اس ماحول میں مودی حکومت کے لئے پریشانیاں پیدا کر سکتی تھی، اس لئے حکومت نے اسے ظاہر کرنے سے روک دیا ہے۔ لیکن آج کے دور میں ایسی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے کیونکہ کئی اخباروں کو اس رپورٹ تک رسائی مل گئی اور وہ منظر عام پر آ گئی۔

کسانوں کی پریشانیوں اور زرعی زمرہ کی بدحالی کے سبب تو یہ گراوٹ آئی ہی ہے مہاتما گاندھی قومی روزگار گارنٹی اسکیم کے ساتھ مودی حکومت کے سوتیلے رویہ کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا ہے، ورنہ کھیتی کا سیزن ختم ہونے کے بعد کھیتوں کی مینڈھ بندی، انھیں برابر کرنے، تالاب کھودنے، شجر کاری کے لئے کھنتی (گڈھے) کھودنے وغیرہ جیسے کاموں سے ان مزدوروں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا تھا لیکن یہ سب مودی حکومت کی ترجیہات میں کبھی نہیں رہا۔

مودی حکومت نے کسانوں کو رجھانے کے لئے ان کے بنک کھاتوں میں 6 ہزار روپیہ سالانہ منتقل کرنے کا وعدہ کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ پہلی قسط کے دو ہزار روپیہ منتقل بھی کر دیئے گئے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور اس کا معاشی بوجھ نیز اس کے بد اثرات جاننے کے لئے ایک طویل مضمون درکار ہوگا، الیکشن بعد یہ اسکیم جاری بھی رہیگی یا نہیں اس پر بھی شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

یہی نہیں پردہ پوشی اور حقائق چھپانے کے مودی سرکار کی کوششوں پر عالمی ادارہ بھی پانی ڈالتے رہتے ہیں ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی خوش حالی انڈیکس میں ہندستان اس سال 140 ویں مقام پر پہنچ گیا جبکہ گزشتہ سال وہ 133 ویں مقام پر تھا، شرمناک، افسوسناک اور حیرتناک حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ اس معاملہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش ہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں، فنلینڈ سب سے اونچے مقام پر ہے یعنی دنیا کا سب سے خوش حال ملک ہے اور برونڈیسب سے نچلے پائدان پر کھڑا ہے- ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری مودی حکومت کی پالیسیوں پر ہے، جو مفاد عامہ خاص کر تعلیم، علاج وغیرہ جیسے اہم معاملات سے اپنا ہاتھ کھینچ کر اس میں نجی زمرہ کو آگے بڑھا رہی ہے، تعلیم کو بازار کے حوالے کر دینے کے بد اثرات سے ماہرین بہت پہلے سے آگاہ کرتے رہے ہیں لیکن نجی زمرہ کے پرائمری اسکولوں سے لیکر یونیورسٹیوں تک کا جال ملک میں پھیلتا ہی جا رہا ہے۔

حکومت نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پر کتر دیئے ہیں اور نجی زمرہ کی یونیورسٹیوں کو من مانی کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ انجینئروں کی فوج تو تیار ہو گئی لیکن ان کی صلاحیت روز اول سے ہی مشکوک رہی، اسی طرح علاج، معالجہ کے معاملہ میں بھی حکومت نے اپنی ذمہ داری بیمہ کمپنیوں کے حوالہ کر دی ہے جو خود تو ملائی کاٹ رہی ہیں اور اسپتالوں کو لوٹ کا اڈا بنا دیا ہے، ظاہر ہے کہ کھانا، دوا، تعلیم جیسے بنیادی سہولیات سے حکومت کے منہ موڑ لینے سے عوام کی مشکلات تو بڑھیں گی ہی تو وہ خوش حال کیسے رہ سکتے ہیں۔

اس سے قبل عالمی بھکمری انڈیکس میں بھی 2013 میں 105 ویں مقام پر رہنے والا ہندوستان 2018 میں 133 ویں مقام پر پہنچ گیا تھا- لفاظی، میڈیا اور دیگر طریقوں سے حکومت عوام کو بے وقوف بنانے انھیں جذباتی معاملوں کے ذریعہ خواب خرگوش میں تو مبتلا رکھ سکتی ہے لیکن سچائی سامنے آ ہی جاتی ہے اور جب عوام کو احساس ہوجائے کہ انھیں اندھیرے میں رکھ کر انھیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے تو ان کا ردعمل بہت سخت ہوتا ہے مودی جی کو عوام کے اس رد عمل کا انتظار کرنا چاہیے-

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔