تین طلاق پر آرڈیننس کی تیاری، مودی حکومت کی تاناشاہی ذہنیت کی عکاس 

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے مرکزی حکومت کے ذریعہ تین طلاق پر آرڈیننس لانے کی تیاریوں کو ہندوستان کی جمہوریت اور جمہوری اداروں پر حملہ قرار دیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

تنویر احمد

طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ مسلم خواتین کو ظلم سے نجات دلانے کا دعویٰ کرنے والی تاناشاہ نریندر مودی حکومت کو جب راجیہ سبھا میں ناکامی ملی اور یہ بل مرکزی حکومت کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی پاس نہیں ہو سکا تو اب اس حکومت نے آرڈیننس لانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ حالانکہ اس آرڈیننس سے متعلق فی الحال کوئی وقت یا تاریخ طے نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں بدھ کے روز جو مرکزی کابینہ کی میٹنگ ہوئی تھی اس میں یہ معاملہ نہیں آ سکا ۔ آرڈیننس لانے کی اس تیاری کو جہاں برسراقتدار طبقہ کے حامی ایک ’ماسٹر اسٹروک‘ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں وہیں اس عمل سے اقلیتی طبقہ میں حیرانی اور مایوسی کا عالم ہے۔

دراصل مودی حکومت نے تین طلاق معاملہ کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وہ کسی بھی حال میں اسے نافذ کرانے کے درپے ہے۔ وہ اپوزیشن پارٹیوں سے بھی اس سلسلے میں ناراض ہے کہ انھوں نے راجیہ سبھا میں اس بل کو پاس ہونے میں رخنہ اندازی کیوں کی۔ اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے میں کہتی رہی ہیں کہ بل میں کچھ ترمیمات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس میں ایسی خامیاں ہیں جو مسئلہ کا حل نکالنے کی جگہ مزید مشکلات پیدا کر دیں گی۔ لیکن حکومت اس بل کو بغیر کسی ترمیم کے نافذ کرانا چاہتی تھی جس پر خوب ہنگامہ بھی ہوا۔

ذرائع کے مطابق مودی حکومت تین طلاق پر جو آرڈیننس لانے کی تیاری کر رہی ہے اس میں بھی وہی باتیں شامل ہوں گی جو بل میں موجود ہیں۔ یعنی تین طلاق کو غیر ضمانتی جرم قرار دیا جائے گا اور اس میں قصوروار کو تین سال تک جیل کی سزا ہو سکے گی۔ تین طلاق سے متاثر خاتون مجسٹریٹ کی عدالت میں نان و نفقہ اور نابالغ بچوں کی کسٹڈی کا مطالبہ بھی کر سکے گی۔ اسی طرح بل میں شامل سبھی باتوں کو آرڈیننس کے ذریعہ قانونی جامہ پہنا کر مودی حکومت خود کو ’فتحیاب‘ ثابت کرنا چاہتی ہے جو ایک طرح سے تاناشاہی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن کمال فاروقی سے جب نریندر مودی حکومت کے ذریعہ تین طلاق پر آرڈیننس لانے کی تیاری سے متعلق ان کا رد عمل جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’لوک سبھا میں بل پاس کرانے کے بعد راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت ایسا نہیں کرا پائی اس لیے وہ آرڈریننس لانے کی سوچ رہی ہوگی جو کسی بھی طرح مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت کو اقلیتی طبقہ کے جذبات کو بھی دیکھنا چاہیے اور لاکھوں خواتین کے ذریعہ پورے ملک میں کیے گئے احتجاجی مظاہروں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جنھوں نے بل میں موجود خامیوں کو حکومت کے سامنے رکھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’تین طلاق پر آرڈیننس لانا ہندوستان کی جمہوریت اور جمہوری اداروں پر حملہ ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بل لایا گیا تھا لیکن یہ درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے جو باتیں کہی تھیں اس کے بہانے مودی حکومت نے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیےتین طلاق بل لایا گیا اور اب وہ آرڈیننس کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘

کمال فاروقی نے نریندر مودی حکومت کے ذریعہ آرڈیننس لانے کی تیاریوں کو ملک میں ہو رہے انتخابات سے بھی جوڑ کر دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ انتخابات کا وقت بھی ہے اس لیے وہ مسلمانوں کو پریشان کر کے دکھانا چاہتے ہیں کہ ’ہم اُن کی ایسی تیسی کر رہے ہیں‘۔ بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں، وہ تو بس ان کو برباد کر کے ’اپنے لوگوں‘ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ حکومت کے اس فیصلے سے وہ غمزدہ بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اس طرح کے قانون سے ازدواجی زندگیاں مشکل میں پڑ جائیں گی۔ عورتوں کی زندگی جہنم بن جائے گی۔‘‘

مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے نریندر مودی حکومت کے ذریعہ آرڈیننس لانے کی تیاریوں کو تماشہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس قدم کو ایکسرسائز نہیں بلکہ تماشا قرار دیا جانا چاہیے۔ اس حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مودی کابینہ تماشہ میں زیادہ یقین کرتی ہے۔‘‘ وہ ’قومی آواز‘ سے گفتگو کے دوران یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مودی حکومت عورتوں کے حق میں یا ان کے فلاح کے لیے کام کر رہی ہے تو وہ غلط ہیں۔ اس حکومت نے تو ہمیشہ مسلمانوں کو پریشان کرنے کا ہی کام کیا ہے۔ ایک طبقہ کے خلاف وہ جس طرح کی کارروائیاں کر رہی ہے اس کا کوئی بہت اچھا نتیجہ نہیں نکلنے والا۔‘‘

تین طلاق کے مسئلہ پر نوید حامد نے اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یقیناً تین طلاق کا مسئلہ حل ہونا چاہیے لیکن حکومت نے جو مسودہ تیار کیا وہ قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کے لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں سے بات کرتے اور ان کے خیالات و نظریات پر غور کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی حکومت ہر محاذ پر جس طرح سے ناکام ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس پختہ شعور کی کمی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ایسی توقع تو نہیں ہے لیکن شاید مرکزی حکومت کو تھوڑی سمجھ پیدا ہو جائے اور وہ جان جائے کہ حکومتیں اس طرح ضدی اور بدلہ لینے والے رویہ کے ساتھ نہیں چلتی بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ لوگ نفرت کرنے والی سرکار نہیں بلکہ محبت اور بھائی چارہ پھیلانے والی سرکار پسند کرتے ہیں۔‘‘

بہر حال، مودی حکومت کو سمجھانے کی کوششیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت متعدد مسلم تنظیمیں کر چکی ہیں اور وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ صدر جمہوریۂ ہند کو بھی طلاق ثلاثہ سے متعلق خطوط بھیجے گئے ہیں لیکن ہنوز کہیں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت نہ ہی تبادلہ خیال کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی کچھ سمجھنا چاہتی ہے۔ اس نے تین طلاق کے خلاف اپنا تیور سخت کر لیا ہے اور آرڈیننس لا کر سبھی مسلم تنظیموں اور اپوزیشن پارٹیوں کو یہ ظاہر کر دینا چاہتی ہے کہ ’اگر وہ کچھ ٹھان لیں تو کوئی روک نہیں سکتا‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 May 2018, 5:58 PM