کیا عوام کے غصے سے خوفزدہ مودی جلد انتخابات کرا سکتے ہیں؟

حکومت خوفزدہ ہے کہ جھوٹے وعدوں اور ہر محاذ پر حکومت کی ناکامی کے سبب لوگ سڑکوں پر نہ اتر آئیں۔ شاید اسی لیے وقت سے ایک سال قبل عام انتخاب کرانے کی پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی اور اس کے بعد گجرات میں محض اتفاق سے ہوئی بی جے پی کی فتح... معیشت کا پٹری سے اترنا اور بے روزگاری جیسے موضوعات عوامی بحث کا حصہ بننا اور دلتوں پر لگاتار بڑھتے حملوں کے درمیان گئو رکشا کے نام پر اقلیتی طبقہ پر حملے وغیرہ... گزشتہ تقریباً پندرہ مہینوں کی یہ وہ باتیں تھیں جن سے اچھے دنوں کی بات تو دور، مودی حکومت کو تنقید کا ہی نشانہ بننا پڑا ہے۔

چند مشرقی کوریائی میڈیا کو چھوڑ کر ہر طرف جو بھی خبر سننے کو مل رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ مودی حکومت معاشی، سماجی اور سیاسی تینوں محاذ پر ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس دوران امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی مبینہ بدعنوانی کی خبریں آنا اور پھر مرکزی حکومت کو بی جے پی کے قومی صدر اور ان کے بیٹے کے دفاع میں اترنا، قومی حفاظتی مشیر اجیت ڈووال کے بیٹے شوریہ ڈووال کے ’انڈیا فاؤنڈیشن‘ میں وزراء کی موجودگی کی خبریں آنا، عدلیہ میں نااتفاقی کا منظر عام پر آنا، سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر کیس کی سماعت کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی حیرت انگیز موت کا معاملہ نئے سرے سے گرمانا... یہ وہ سارے ایشوز تھے جن میں انگلیاں مرکزی حکومت کی طرف ہی اٹھ رہی تھیں۔ اور ایک سوال جو ملک بار بار پوچھ رہا تھا وہ یہ کہ آخر ان سب معاملوں پر وزیر اعظم کچھ بولتے کیوں نہیں؟ وہ خاموش کیوں ہیں؟

’نئی دیشا‘ ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ
’نئی دیشا‘ ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کے لئے تشہیر میں فعال کردار ادا کر چکے ٹیکنالوجی سیکٹر کے ماہر راجیش جین

ایسے ماحول میں لگاتار تعریفیں سننے کے عادی ہو چکے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے لیے فکرمند ہونا قدرتی ہے۔ عام زبان میں کہیں تو پانی سر کے اوپر آئے، اس سے پہلے کچھ کرنے کی پالیسی بنائی گئی۔ اور اس کا ذمہ پھر سے بی جے پی کے واحد ’سنکٹ موچک‘ اور مقبول چہرہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی سنبھالنا پڑا۔ ’نئی دِشا‘ نامی ویب سائٹ کو دیے انٹرویو میں راجیش جین نے جو کچھ کہا ہے، اس سے جو بات نکل کر آتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ بالا سبھی ایشوز سے فکرمند حکومت وقت سے پہلے عام انتخابات کرا سکتی ہے۔ راجیش جین ٹیکنالوجی شعبہ کے ماہر ہیں اور 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران نریندر مودی کی تشہیر میں سرگرم کردار ادا کر چکے ہیں۔ ان کی کمپنی ’نیتی ڈیجیٹل‘ 2014 کے انتخابات میں مودی کی تشہیر کے کام کو انجام دے رہی تھی۔

راجیش جین اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وقت سے پہلے، کوئی دو چار مہینے پہلے نہیں بلکہ اسی سال مارچ-اپریل میں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ سوال اٹھے گا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے جس پر مودی حکومت وقت سے تقریباً ایک سال قبل عام انتخابات کرائے گی؟ راجیش جین کا کہنا ہے کہ جو بھی منفی ماحول بنا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایک وسیع پالیسی بنائی گئی ہے جس کے تحت آئندہ دو تین ہفتہ نریندر مودی خبروں میں بنے رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسا وزیر اعظم جس نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں پریس کانفرنس کرنا تو دور، مشکل سے ہی کوئی انٹرویو دیا... اچانک دو دو چینلوں کو کیوں لمبا چوڑا انٹرویو دینے لگے۔ اس انٹرویو میں بھی جو سوال و جواب ہوئے اس کا مقصد ایک ’فیل گڈ‘ ماحول دکھانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ان کا سیدھا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ ان دونوں انٹرویو کا چہار جانب تذکرہ ہوگا اور انٹرویو میں کہی گئی باتیں لوگوں کی زبان پر آئیں گی۔

وزیر اعظم کا داووس میں ہو رہی ورلڈ اکونومک فورم کی سالانہ میٹنگ میں شامل ہونا بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ راجیش جین کے مطابق انھیں معلوم ہے کہ ان کا داووس دورہ صبح سے شام تک، اور کئی دنوں تک ہر قسم کے میڈیا میں چھایا رہے گا۔ ٹی وی، اخبار، رسائل اور سوشل میڈیا پر ان کی داووس میں دی گئی تقریر اور وہاں ہوئی دو فریقی ملاقاتیں ہی اگلے کئی دنوں تک موضوعِ بحث رہیں گی۔ یہ بھی منفی ماحول کو بدلنے کی کوشش ہی ہے۔ راجیش جین کہتے ہیں کہ یوم جمہوریہ یوں تو صدر جمہوریہ کی تقریب ہوتی ہے لیکن مودی حکومت نے اسے وزیر اعظم کی تقریب بنا دیا ہے۔ اس مرتبہ آسیان کے دس ممالک کے قومی سربراہوں کو خصوصی مہمان بنایا گیا ہے۔ یعنی یومِ جمہوریہ پر اور اس کے اگلے دو تین دن تک وزیر اعظم مودی ہی خبروں میں چھائے رہیں گے۔

راجیش جین کہتے ہیں کہ یومِ جمہوریہ تقریب ختم ہوتے ہی یکم فروری کو عام بجٹ پیش ہونا ہے۔ یعنی پھر سے وزیر اعظم اور حکومت پر ہی فوکس ہوگا۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ چونکہ یہ موجودہ حکومت کا آخری ’فل بجٹ‘ ہوگا اس لے اس میں عام لوگوں کے لیے تحفوں کی بھرمار ہونے کا امکان ہے۔ جین اشارہ کرتے ہیں کہ بھلے ہی براہ راست کوئی سوغات نہ دی جائے لیکن تمام ایسے منصونوں کا اعلان ہو سکتا ہے جسے عام آدمی کے لیے اچھے دنوں کے طور پر شمار کرایا جائے گا۔

لیکن کیا صرف مختلف ایشوز پر ہو رہی تنقید کی وجہ سے ہی بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی نئی پالیسی کے تحت لوگوں کے سامنے آئے ہیں؟ راجیش جین کہتے ہیں کہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخاب میں 2014 جیسی کارکردگی دوہرا پانا بے حد مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سال کے آخر میں ہونے والے کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اگر بی جے پی کو جھٹکا لگتا ہے تو اس کا اثر 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ راجیش واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ بی جے پی اور مودی حکومت اپنے ساڑھے تین سال کے دوران وعدوں پر کھری نہیں اتری ہے۔ خصوصاً کسانوں اور روزگار کے ایشو پر گہری غیر اطمینانی ہے۔ ساتھ ہی بڑھتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ ناراضگی بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ایسے میں انتخابات پہلے ہی ہو جائیں تو یہ بی جے پی کے لیے فائدے کی بات ہوگی۔

راجیش جین کا ماننا ہے کہ انتخابات اگر وقت سے قبل ہوتے ہیں تو یہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ایک ’سرپرائز‘ ہوگا جس کا انھیں جھٹکا بھی لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ 100 دنوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں برسراقتدار پارٹی یا یوں کہیں کہ بی جے پی ہر لحاظ سے اپوزیشن پر بھاری ہے کیونکہ اس کے پاس اقتدار ہے، وسائل ہیں اور وہ سب کچھ ہے جو انتخابات کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ وہیں اگر انتخابات 2019 میں ہوتے ہیں تو اپوزیشن کو منظم ہونے کا وقت مل جائے گا اور کانگریس کے ساتھ اپوزیشن ایک مضبوط چیلنج کی شکل میں سامنے آئے گی۔

انتخاب اسی سال مارچ-اپریل میں ہونے کی وکالت کرتے ہوئے راجیش جین کہتے ہیں کہ صرف یہی وجہ نہیں ہے کہ لوک سبھا انتخابات وقت سے پہلے ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حال ہی میں ’ریپبلک ٹی وی‘ نے ’سی-ووٹر‘ کے ساتھ مل کر ایک سروے کرایا جس میں این ڈی اے کو 335 سیٹیں ملتی دکھائی گئیں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس سروے کو اس وقت کرنے کا مقصد کیا تھا؟ ان کا ماننا ہے کہ کہیں اس کا اشارہ یہ تو نہیں تھا کہ انتخابات ابھی ہی کرا لینے چاہئیں؟ راجیش جین کے مطابق یکم فروری کو پیش ہونے والے بجٹ میں ہر طبقہ کو وزیر اعظم مودی کا تحفہ مل سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لوگوں کے دماغ میں سیاسی اور معاشی خبریں 90 دنوں تک بنی رہتی ہیں، ایسی صورت میں اگر بجٹ سے لوگوں کو ’فیل گڈ‘ ہوتا ہے تو انتخابات میں اسے اچھی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ جلد انتخابات کی ایک اور وجہ بتاتے ہیں۔ راجیش جین کہتے ہیں کہ حال ہی میں وزیر اعظم مودی نے بھی اپنے انٹرویو میں انتخابات کو ایک ساتھ کرانے کی بات کی تھی۔ ایسے میں مارچ-اپریل 2018 میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو اسی کے ساتھ کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔

تو کیا وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا فائدہ مودی کو ملے گا؟ اس سوال کے جواب میں راجیش جین کہتے ہیں کہ اگر اندازہ لگایا جائے تو بی جے پی کو تقریباً 50 سے 60 یا اس سے بھی زیادہ سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق تنہا گجرات، مدھیہ پردیش راجستھان، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں ہی بی جے پی کو 40 سے 50 سیٹوں کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی اتر پردیش میں بھی ان کی سیٹوں کی تعداد 71 سے گھٹنے کے امکان ہیں۔

راجیش جین کے مطابق مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں بی جے پی کی موجودگی تقریباً صفر ہے، ایسے میں اسے وہاں سے کچھ ہاتھ لگنے کے امکان نظر نہیں آتے۔ ایسی حالت میں بی جے پی کی اپنی سیٹوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ 215 سے 225 تک ہو سکتی ہے۔

وقت سے تقریباً ایک سال قبل انتخابات کرانے کے پیچھے راجیش جین کی دلیل یہ بھی ہے کہ کسانوں اور زراعتی سیکٹر کا بحران اور بے روزگاری جیسے جو مسائل ملک کے سامنے ہیں ان کا علاج یا حل آئندہ بارہ مہینوں میں ہونا ممکن نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ مودی حکومت کے لیے بحران مزید گہرا ہونے کا امکان ہے، علاوہ ازیں لگاتار دو سالوں کے اچھے مانسون کے بعد اس سال مانسون نے بھی اگر دھوکہ دے دیا تو مصیبت بڑھ جائے گی۔ ایسے میں یہی ایک راستہ بچا ہے کہ اس سال کے بجٹ سے ’فیل گڈ‘ فیکٹر دکھا کر انتخابی میدان میں قدم رکھا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ یوں تو معاشی حالت ایسی نہیں ہے کہ جو بھی نئے وعدے کیے جائیں گے اور نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے ان کے لیے حکومت کے پاس پیسہ ہو، کیونکہ جی ایس ٹی کے بعد حکومت کی آمدنی پہلے ہی گھٹ گئی ہے اور ریاستوں کا حصہ دینے کے بعد اس کے پاس زیادہ کچھ بچنے والا نہیں ہے۔ ایسے میں عوام کو خوش کرنے والے اعلانات کے فوراً بعد ہی انتخابات کرانا بہتر ہے۔ کیونکہ یہ حکومت پہلے ہی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسے میں اگر نئے منصوبوں اور وعدوں میں بھی وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو ماحول مزید منفی ہو سکتا ہے۔

مجموعی طور پر حکومت کو خوف ہے کہ ہر محاذ پر ناکامی اور وعدہ خلافی سے لوگوں کی ناراضگی اتنی نہ بڑھ جائے کہ وہ سڑکوں پر اتر آئیں۔ اس سے پہلے کہ لوگ سڑکوں پر اتریں، حکومت نے خود ہی انتخابی میدان میں اتر کر ان کے درمیان جانے کی پالیسی بنائی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔