مودی کی جیت کےلئے وحشت خیز ہوس

ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ڈنر میٹنگ میں شریک شخصیات کی حب الوطنی پر شک کرنے کے لیے مودی کو شرم آنی چاہیے۔ خود ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک انتہائی سخت بیان جاری کرکے مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات انتخابات کو کسی بھی قیمت پر جیت لیے جانے کی اپنی وحشت خیز ہوس کے درمیان سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری، سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور اور بعض سابق سفارتکاروں اور صحافیوں و دانشوروں پر پاکستان کے ساتھ ساز باز کرنے کا جو الزام عاید کیا تھا وہ ان پر بھاری پڑ رہا ہے۔ نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں سے بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں سے بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ان کی زبردست مذمت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے ایک سینئر اور سرکردہ سیاست داں اور سابق وزیر دفاع و این سی پی کے صدر شرد پوار نے ان کی مذمت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ اور ڈنر میٹنگ میں شریک شخصیات کی حب الوطنی پر شک کرنے کے لیے مودی کو شرم آنی چاہیے۔ خود ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک انتہائی سخت بیان جاری کرکے مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینئر صحافی ونود دوا نے اپنی رپورٹ میں مودی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مذکورہ افراد دشمن ملک پاکستان کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف سازش کر رہے تھے تو وہ ان لوگوں پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات کے تحت مقدمہ کیوں نہیں چلاتے۔ اگر مودی کی یہ بات درست ہے تو یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ اس میں ان لوگوں کی فوراً گرفتاری عمل میں آنی چاہیے۔ جنرل دیپک کپور اور ڈنر میٹنگ میں شریک بعض دیگر شخصیات نے بھی مودی کے الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ وہ میٹنگ نہ تو خفیہ تھی اور نہ ہی اس میں گجرات انتخابات کا کوئی ذکر آیا۔ یہاں تک کہ اس میں ہندوستان کی داخلی سیاست پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس میں صرف ہند پاک تعلقات پر گفتگو ہوئی اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ رپورٹوں کے مطابق میٹنگ کے دوران من موہن سنگھ ایک لفظ بھی نہیں بولے تھے۔

نریندر مودی کا یہ الزام در اصل ان کی دروغ گوئی کی اگلی کڑی ہے جو کہ انتہائی بھیانک اور تشویش ناک ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی وزیر اعظم محض ایک اسٹیٹ کا الیکشن جیتنے کی خاطر اتنی سنگین غلطی کرے گا یا اتنا خطرناک جھوٹ بولے گا۔ مودی نے اپنے اس عمل سے نہ صرف وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو اپنے پیروں تلے روندا ہے بلکہ ہندوستان کی عزت کو بھی عالمی سطح پر داغدار کر دیا ہے۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کسی ملک کی وزارت عظمیٰ پر فائز کوئی شخص اسمبلی الیکشن جیتنے کی خاطر اتنی نچلی سطح پر آسکتا ہے کہ اسے اپنے منصب اور وقار کا کوئی پاس و لحاظ نہ رہ جائے۔ مودی نے اس الیکشن میں اپنی عزت کو ملیا میٹ ہونے سے بچانے کے لیے ملک کی عزت کو داؤ پر لگا دیا۔ انھوں نے جو ڈرامے کیے وہ اپنی جگہ پر۔ ان پر ہم کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ایک سابق وزیر اعظم، ایک سابق آرمی چیف، ایک سابق نائب صدرجمہوریہ، ایک سابق ہائی کمشنر، ایک سابق سفارتکار اور سرکردہ صحافیوں پر دشمن ملک کے ساتھ سازش کرنے کا الزام کوئی معمولی الزام نہیں ہے۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔

نریندر مودی نے یہ الزام بہت سوچ سمجھ کر لگایا ہے۔ انھوں نے اس کے توسط سے رائے دہندگان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جس کا ذکر شتروگھن سنہا نے بھی کیا ہے۔ مودی نے ڈنر میٹنگ کو ایک خفیہ میٹنگ قرار دیا اور جن لوگوں کے نام لیے اس سے خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا مقصد کیا رہا ہوگا۔ انھوں نے کانگریس کو نشانہ بنانے کے لیے من موہن سنگھ کا نام لیا۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے حامد انصاری کا نام لیا۔ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے وہاں کے ہائی کمشنر کا نام لیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے ایک ایسے سابق ڈائرکٹر کا بھی نام لے لیا جو اس میٹنگ میں شریک ہی نہیں تھے۔ سردار ارشد رفیق کا نام لے کر انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ احمد پٹیل گجرات کے وزیر اعلی بنیں۔ ارشد رفیق نے ہندوستانی صحافیوں سے فون پر بات کرتے ہوئے میٹنگ میں شرکت کی تردید کی اور کہا کہ وہ تو بہت چھوٹے آدمی ہیں وہ ہندوستانی الیکشن کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔ انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ پھر بھی اگر نریند رمودی اپنی شکست کا سہرا میرے سر باندھنا چاہتے ہیں تو ان کا استقبال ہے۔ سرداروں کے سر پر ہمارا سہرا بندھتا رہا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی اس پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ ہندوستانی سیاست داں اپنے داخلی انتخابات میں پاکستان کو نہ گھسیٹیں، وہ اپنی کارکردگی اور اہلیت کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی کوشش کریں۔

بی جے پی لیڈروں کی جانب سے ان جوابی حملوں کا کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا ہے۔ دو لوگ سامنے آئے۔ ایک ارون جیٹلی اور دوسرے روی شنکر پرساد۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی من موہن سنگھ کی باتوں کا جواب نہیں دے سکا۔ روی شنکر پرساد نے جہاں پاکستان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اپنی جمہوریت پر ناز ہے وہیں جیٹلی نے دائیں بائیں بھاگنے کی کوشش کی۔

نریندر مودی اس سے قبل بھی من موہن سنگھ کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بدعنوانی کا ذکر کیا تھا اور انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ رین کوٹ پہن کر نہانے کا ہنر صرف ڈاکٹر صاحب ہی جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ اس پر راہل گاندھی نے کہا تھا کہ مودی اگر دوسروں کے غسل خانوں میں جھانکنے کے بجائے کام کرتے تو بہتر ہوتا۔ من موہن سنگھ اُس وقت خاموش رہے۔ ان کا مزاج ہے کہ وہ بڑے سے بڑا حملہ بھی اور بڑی سے بڑی توہین بھی بڑے صبر و ضبط اور تحمل کے ساتھ برداشت کر جاتے ہیں۔ وہ ہر الزام کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ لیکن اس بار تو نریندر مودی نے تمام حدیں عبور کر لیں۔ نتیجتاً من موہن سنگھ جیسے خاموش طبع شخص کو بھی انتہائی سخت بیان دینا پڑا۔ ہاں سابق نائب صدر جمہوری حامد انصاری نے اس بار بھی خاموشی اختیار کی۔ جب وہ عہدے سے سبکدوش ہو رہے تھے تو اس وقت بھی نریندر مودی نے ان کی توہین کی تھی اور ان پر ایک خاص قسم کی سیاست کرنے اور ایک خاص قسم کے حلقوں میں سرگرم رہنے کا الزام عاید کیا تھا۔ لیکن حامد انصاری نے وہ کڑوا گھونٹ پی لیا تھا۔ اس بار بھی انھوں نے یہی کیا۔ وہ اگر چہ حامد انصاری اب نائب صدرجمہوریہ نہیں ہیں لیکن ان کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ اس باوقار عہدے پر دس برسوں تک فائز رہ چکے ہیں۔ اس عہدے کے کچھ تقاضے ہیں، اس کی کچھ مریادائیں ہیں۔ لہٰذا انھوں نے خاموش رہنا اپنے اور ملک کے وقار کے لیے ضروری سمجھا۔ کاش یہی سمجھ بی جے پی لیڈروں میں بھی پیدا ہو جائے تو اس قسم کا پراگندہ ماحول نہ بنے اور ملک کا وقار داغدار ہونے سے بچا رہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔